فائل فوٹو
فائل فوٹو

عرب امارات کیلیے ویزوں پر خاموش پابندی دو برس سے نافذ

عمران خان :
یو اے ای کے لیے ویزوں پر خاموش پابندی کے حوالے سے اسلام آباد کے ذرائع سے ملنے والی معلومات میں سنسنی خیز انکشافات سامنے آئے ہیں۔ جبکہ سینیٹ میں کی جانے والی بریفنگ نے معاملہ مزید سنگین بنا دیا ہے۔

’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات کے مطابق اسلام آباد میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستانی شہریوں کیلئے ویزوں کے اجرا میں غیر معمولی سختی کے معاملے نے اس وقت نیا رخ اختیار کر لیا ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں موجود انتہائی باخبر اور حساس ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ یو اے ای نے عام پاکستانی پاسپورٹ رکھنے والے افراد کے لیے ویزوں کا اجرا عملی طور پر تقریباً روک دیا ہے۔ اگرچہ اس فیصلے کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق یہ پالیسی گزشتہ ڈیڑھ دو برس سے خاموشی کے ساتھ نافذ ہے۔ لیکن حکومتِ پاکستان عوامی ردعمل سے بچنے اور سفارتی محاذ پر صورتحال کی نزاکت کے پیشِ نظر اسے ظاہر کرنے سے گریزاں رہی۔
ذرائع کے مطابق گزشتہ روز سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں وزارتِ داخلہ نے پہلی بار اس مسئلے کا واضح اور باضابطہ اعتراف کیا۔ ایڈیشنل سیکریٹری داخلہ سلمان چوہدری نے کمیٹی کو بتایا کہ اس وقت عام پاکستانی شہریوں کے لیے ویزے جاری ہونا تقریباً بند ہیں۔ ڈپلومیٹک اور آفیشل پاسپورٹ رکھنے والے افراد کو ہی ویزا مل رہا ہے۔ انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ یو اے ای کے ساتھ ساتھ سعودی عرب بھی پاکستانی پاسپورٹ پر مکمل پابندی عائد کرنے کے قریب پہنچ چکا تھا۔ تاہم آخری لمحے پر یہ فیصلہ موخر کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کبھی ایسی پابندی باضابطہ طور پر لگا دی گئی تو اسے ختم کروانا ’’انتہائی مشکل‘‘ ہوگا۔

کمیٹی کی چیئر پرسن سینیٹر ثمینہ ممتاز زہری نے بریفنگ کے دوران سامنے آئے اس موقف کی نہ صرف تصدیق کی۔ بلکہ اس پر شدید تشویش کا اظہار بھی کیا۔ ان کے مطابق اماراتی حکام پاکستانی شہریوں کی جانب سے وہاں جرائم میں ملوث ہونے کی شکایات کر رہے ہیں۔ جس کے بعد ویزوں پر سختی کو بنیادی طور پر ’’سیکورٹی بیسڈ فیصلہ‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ صورت حال نہ صرف لاکھوں پاکستانیوں کے لیے تشویشناک ہے۔ بلکہ دونوں ممالک کے دیرینہ سفارتی اور معاشی تعلقات پر بھی اس کے سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

اسلام آباد میں حساس ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ یہ معاملہ محض گزشتہ چند ہفتوں یا مہینوں کی بات نہیں، بلکہ گزشتہ دو برس سے جاری ہے۔ ان ذرائع کے مطابق دبئی میں سیکورٹی حکام نے پاکستان کو متعدد بار غیر رسمی پیغامات کے ذریعے متنبہ کیا کہ بعض پاکستانی علاقوں سے آنے والے افراد مسلسل منشیات، دھوکہ دہی، اسٹریٹ کرائمز، بھیک مانگنے اور نوکری کی تلاش میں غائب ہو جانے جیسے جرائم میں ملوث پائے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اماراتی امیگریشن نے ان علاقوں سے تعلق رکھنے والے درخواست دہندگان کو ’’ہائی رسک زون‘‘ میں شامل کر رکھا ہے۔ حالانکہ اس کی کوئی باضابطہ فہرست عوام کے سامنے نہیں لائی گئی۔

ذرائع کے مطابق اس غیر رسمی فہرست میں کوئٹہ، خوشاب، ڈیرہ غازی خان، ایبٹ آباد، مظفرآباد، سرگودھا، اٹک، ڈیرہ اسماعیل خان، کرم، قصور، نواب شاہ، شیخوپورہ، باجوڑ، ہنگو، کوہاٹ، سکردو، لاڑکانہ، پارہ چنار، چکوال، ہنزہ، کوٹلی، ساہیوال، سکھر اور مہمند سمیت 20 سے زائد شہر شامل ہیں۔ ان شہروں کے بارے میں اماراتی حکام کا موقف ہے کہ وہاں سے آنے والے افراد کی جانب سے مسائل پیدا کرنے کا تناسب زیادہ پایا گیا ہے۔

دوسری جانب اسلام آباد میں تعینات ایک اعلیٰ امیگریشن افسر نے پسِ پردہ کئی اہم حقائق سے پردہ اٹھایا۔ ان کا کہنا ہے کہ یو اے ای حکومت، پاکستان سے گزشتہ چند برس میں کیے گئے مختلف معاشی، لیبر اور سرمایہ کاری وعدوں کی عدم تکمیل پر سخت نالاں ہے۔ پاکستانی لیبر فورس میں بڑھتے ہوئے جرائم، اوور اسٹے کے کیسز، جعلی میڈیکل رپورٹس اور سیاحتی ویزے پر آ کر نوکری کی تلاش جیسے معاملات نے اماراتی امیگریشن کو مزید سخت اقدامات پر مجبور کیا۔ سفارتی ذریعے کے مطابق ’’یو اے ای نے رسمی پابندی تو نہیں لگائی۔ لیکن عملی طور پر صورتحال عام پاکستانیوں کے لیے تقریباً نو انٹری‘ کے مترادف ہے‘‘۔

اسلام آباد کے ٹریول سیکٹر میں موجود افراد بھی اس صورتحال کی تصدیق کرتے ہیں۔ ان کے مطابق گزشتہ ایک سال میں ویزا درخواستوں کے مسترد ہونے کی شرح کئی گنا بڑھ چکی ہے، اور اکثر کیسز میں ’’پراسیسنگ میں تاخیر‘‘ کے نام پر درخواستیں غیر موثر بنا دی جاتی ہیں۔ ایجنٹس کے مطابق انہیں غیر رسمی طور پر مشورہ دیا جاتا ہے کہ مخصوص علاقوں کے لوگوں کی درخواستیں جمع نہ کرائی جائیں۔ کیونکہ زیادہ تر کیسز کسی نہ کسی مرحلے پر رد ہو جاتے ہیں۔ تاہم وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جو افراد پہلے سے یو اے ای کے اقامہ ہولڈر ہیں، یا جن کے پاس پاور فل کیس، مالی ثبوت یا دبئی میں اسٹیبلشڈ اسپورٹ موجود ہے، ان کے لیے صورتحال نسبتاً بہتر ہے۔

ذرائع کے مطابق اس کے برعکس پاکستان کے دفتر خارجہ نے ہمیشہ کی طرح روایت برقرار رکھتے ہوئے اس خطرناک صورتحال کی تردید کر دی۔ لیکن ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق یہ تردید ’’سفارتی دبائو‘‘، ’’عوامی گھبراہٹ‘‘ اور ’’تارکین وطن کی برہمی‘‘ سے بچنے کی حکومتی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ وزارتِ داخلہ کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان کے پاس اس وقت بہترین کردار ادا کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں۔ جبکہ اندرونی سطح پر یہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ معاملہ سنگین رخ اختیار کر چکا ہے۔

اسلام آباد کے سینئر حکومتی ذرائع نے خبردار کیا ہے کہ اگر پاکستان نے آنے والے ہفتوں میں اماراتی قیادت کے ساتھ اعلیٰ سطح کی مشاورت نہ کی اور لیبر مارکیٹ میں اصلاحات، غیر قانونی ہجرت اور سیکورٹی معاملات پر پیش رفت نہ دکھائی تو ممکن ہے کہ آنے والے مہینوں میں صورتحال مزید خراب ہو۔ ان کے مطابق ’’اگر یو اے ای نے کبھی رسمی پابندی کا اعلان کر دیا تو اس کا براہ راست اثر ترسیلاتِ زر، لیبر مارکیٹ اور لاکھوں پاکستانی خاندانوں کی معاشی زندگی پر پڑے گا‘‘۔

ذرائع کے مطابق آج کی سینیٹ بریفنگ اور ’’امت‘‘ کو حاصل ہونے والے ذرائع کی معلومات یہ واضح کرتی ہیں کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والا معاملہ محض افواہ نہیں تھا۔ اگرچہ ابھی تک کوئی باضابطہ سفری پابندی نافذ نہیں ہوئی۔ لیکن عملی طور پر سختی، نگرانی، مشکوک شہروں کی اسکریننگ اور عام پاکستانی شہریوں کی درخواستوں کے مسترد ہونے کا رجحان بڑھ چکا ہے۔ حکومت اسے دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ جبکہ دبئی حکام خاموشی سے پاکستانی درخواست دہندگان پر اپنی چھان بین اور پالیسی سخت کر رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔