خیبرپختونخوا کے علاقے بونیر کی خاموش وادیوں میں رواں سال آنے والے بدترین سیلاب کے بعد خوف کی فضا ہے۔ یہاں کے ندی نالے جولائی اور اگست میں طوفانی بارشوں کے بعد کیچڑ اور پتھروں سے بھرے دریا بن گئے تھے جنہوں نے آن کی آن میں ہر جانب تباہی پھیلا دی۔لیکن سب سے زیادہ تباہ کن سیلاب 15 اگست جمعہ کی صبح بونیرکے گائوں بشونئی میں آیاتھا۔ شدید بارش ہوئی اور اچانک پانی کا ایسا ریلا آیا جو ’اپنے ساتھ بڑے بڑے پتھر لایا اور راستے میں آنے والی عمارتیں ملیا میٹ کرتا ہوا آناً فاناً پورا گاؤں تباہ کر گیا۔
پیشونئی گاؤں جو پیر بابا بازار سے تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر پہاڑ کے دامن میں واقع ہے، تقریباً مکمل طور پر ملیامیٹ ہوگیا۔مقامی افراد کے مطابق اسی گاؤں سے پہاڑی پر بہنے والے ایک برساتی نالے میں بادل پھٹنے کے نتیجے میں اچانک سیلابی ریلا آیا اور اپنے ساتھ بڑے بڑے پتھر بھی بہا کر لایا۔
پیشونئی میں کچھ ایسے مکانات بھی ہیں، جہاں گھر کا کوئی فرد بھی زندہ نہیں بچا۔
بونیر کے مختلف حصوں میں طوفانی بارشوں، تباہ کن سیلاب اور شدید آندھیوں کے باعث بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان ہوا تھا۔صوبائی ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی نےضلع میں اموات کی تعداد 91 بتائی تھی، تاہم ریسکیو 1122 کے میڈیا کوآرڈینیٹرکا کہناتھاکہ 157 افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات ہیں،بعدازاں یہ تعداد 184 تک پہنچی۔تاہم بشنوئی میں پہاڑسے گرنے والے سیلابی ریلے کی تباہ کاریاں سواتھیں،جن کے اثرات ساڑھے تین ماہ بعد بھی موجود ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرت(آئی او ایم)نے ایک تازہ رپورٹ میں بتایاہے کہ 35 سالہ استاد حبیب النبی کے مطابق ‘ہم نے اس سے پہلے کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا تھا۔ انہوں نے سیلاب میں ایک ہی روز اپنے والدین اور بھائی سمیت 18 قریبی رشتہ دار کھو دیے۔ اس گاؤں میں بیسیوں لوگ بھاری پتھروں اور ملبے تلے دب کر جاں بحق ہوئے اور پہاڑوں سے آنے والے سیلابی ریلے منٹوں میں گھروں اور زندگیوں کو بہا لے گئے۔
حبیب کا کہنا ہے کہ ‘جو لوگ بچ گئے انہیں سوگ منانے کا موقع بھی نہ ملا۔ ہم دوسروں کو ملبے سے نکالنے میں لگے رہے اور جس کی بھی مدد کر سکتے تھے کرتے رہے۔ اس آفت کو کئی مہینے گزر جانے کے بعد بھی گاؤں کے کھنڈرات پر نم مٹی کی بو محسوس ہوتی ہے اور جہاں کبھی بچوں کی ہنسی گونجتی تھی وہاں اب خاموشی چھائی رہتی ہے۔
سیلاب آیا تو سب سے پہلے مدد کے لیے پہنچنے والوں میں 19 سالہ خلیل احمد بھی شامل تھے جو بونیر ہی کے رہائشی اور رضاکار ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے پہاڑ کی چوٹی پر بادل پھٹتے دیکھا اور پھر گاؤں سے گزرنے والے ندی نالے اچانک دریا بن گئے جو اپنے ساتھ بڑے پتھر اور مٹی لائے۔ ان کی زد میں آ کر کم از کم 40 گھر مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔خلیل کا کہناہے کہ میں نے ایسے خاندان دیکھے جن کی خواتین اور بچے اس دن کے بعد سے خاموش ہیں۔ یہاں لوگوں کو خوراک اور پناہ کے ساتھ ذہنی صحت کے حوالے سے مدد کی بھی اشد ضرورت ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کی انسانی قیمت مشترکہ ذمہ داری اور مضبوط عملی اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos