اس وقت عام طورپر دنیامیں رائج عیسوی تقویم یا گریگورین کیلنڈر کا آخری مہینہ شروع ہوگیا۔ دسمبر کا سورج طلوع ہوتے ہی اداسی ،افسردگی،ہجر اوردرد کی فضا بھی چھاگئی۔اسے ایک تہوارجیسی حیثیت حاصل ہوچکی ہے۔
آج سے سوشل میڈیاپر ایسی شاعری کا سلسلہ شروع ہوگا جو مہینہ بھر پوری آب وتاب سے جاری رہے گا۔ دسمبرکے اختتام پر ان شاعرانہ اظہاریوں کا رنگ الوداعی ہوجائے گا اور پھرنئے سال کےآتے ہی غم والم اچانک ختم ہوکر زندگی کو معمول پر بھی لے آئے گا۔
یہ ’’ دسمبرکی شاعری‘‘ کب شروع ہوئی ،اس کاکوئی باضابطہ ریکارڈ موجودنہیں البتہ قیاس کیا جاسکتاہے کہ شاید ابرارالحق نے اپنامشہور گانا ’’ بھیگا بھیگا سایہ دسمبر‘‘ گایا تھاتو اس کے بعد یہ رحجان زورپکڑگیا ہو۔تاہم اس بارے میں حتمی معلومات دستیاب نہیں۔البتہ محقق ڈاکٹر عقیل عباس جعفری نے عرش صدیقی کے کلام سے ایک نظم کا حوالہ دیا ہے جس کا عنوان ہے’’ اسے کہنا‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ اس نظم سے دسمبر کی شاعری کا آغازہواتھا۔انہوں نے لکھاکہ یہ اچھی بھلی نظم ہے مگر اس کے بعد فیس بکی شاعروں نے دسمبر کے نام پر جو اودھم مچایا ہے اس نے اس نظم کو بھی لپیٹ میں لے لیا ہے۔
نظم یہ ہے۔
اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے
دسمبر کے گزرتے ہی برس اک اور ماضی کی گپھا میں
ڈوب جائے گا
اسے کہنا دسمبر لوٹ آئے گا
مگر جو خون سو جائے گا جسموں میں نہ جاگے گا
اسے کہنا، ہوائیں سرد ہیں اور زندگی کہرے کی
دیواروں میں لرزاں ہے
اسے کہنا، شگوفے ٹہنیوں میں سو رہے ہیں
اور ان پر برف کی چادر بچھی ہے
اسے کہنا اگر سورج نہ نکلے گا
تو کیسے برف پگھلے گی
اسے کہنا کہ لوٹ آئے
عرش صدیقی کا سخن اپنی جگہ لیکن سوشل میڈیاپر جو دسمبرکی شاعری گردش کرتی ہے ،وہ خود ایک صنف بن چکی ہے۔ گذشتہ دنوں یعنی نومبر کے آخری ہفتے میں یہ سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ ایک صارف نے دسمبر کے آنے کی اطلاع دی۔
دسمبر چل پڑا گھر سے
سنا ہے پہنچنے کو ہے !
مگر اس بار کچھ یوں ہے
کہ میں ملنا نہیں چاہتا
ستمگر سے ….!
میرا مطلب، دسمبر سے
ایک اور صارف نے ’’ دسمبری کلاسک شاعری‘‘ قرارد ے کر یہ مزاحیہ اظہاریہ پیش کیا ہے۔
اے دسمبر تم کیوں آتے ہو؟
دسمبر: ایویں ہی
اے دسمبر ، تم مت جاو نا
دسمبر : آگے جنوری میں بھی مینو بڑے کام ویلا نئیں
دسمبر! تم یاد آتے ہو
دسمبر: ہاں جی، ایڈا میں دو دا پہاڑہ
دسمبر! تم درد دیتے ہو
دسمبر،:میں تہاڈا ہتھ بوہے اچ دے دِتا؟؟
دسمبر! تم اتنے اداس کیوں دِکھتے ہو
دسمبر :تے باقی مہینے کیہڑا تہانوں جگتاں لاندے
ایساہی ہلکاپھلکا ایک اور سخن کسی ستم ظریف نے ایکس پر شیئرکیا ۔
اس نے کہا
سنوجاناں
دسمبر آگیاہے
میں نے کہا
سنوجاناں
میرے گھربھی کیلنڈرہے۔
اس حوالے سے سنجیدگی زیادہ ہے۔
نومبر کی طرح ہم بھی کہہ دیں گے الوداع اک دن
پھر ڈھونڈتے پھرو گے دسمبر کی سرد راتوں میں۔۔۔
نامور شاعر خالدشریف نے بھی اسے موضوع سخن بنایاہے۔
ذرا سی دیر دسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
یہ فرصتیں ہمیں شاید نہ اگلے سال ملیں
ان کی پوری غزل اس طرح ہے۔
کسی کو دیکھوں تو ماتھے پہ ماہ و سال ملیں
کہیں بکھرتی ہوئی دھول میں سوال ملیں
ذرا سی دیر دسمبر کی دھوپ میں بیٹھیں
یہ فرصتیں ہمیں شاید نہ اگلے سال ملیں
یہ شعر و شاعری سب ہے عطا ان آنکھوں کی
وہ اک نگاہ اٹھائے تو سو خیال مِلیں
جو اپنے چہرے کو محفوظ دیکھنا چاہے
وہ کیا کرے کہ یہاں آئینوں میں بال ملیں
میں بے ہنر تھا سو حیرت میں گم ہوا خالد
کہ ہر قدم پہ یہاں لوگ با کمال ملیں
آنے والے دنوں میں سردموسم کے باوجود یہ حدت بڑھے گی۔
دسمبر کی سرد رات ہے
شال تو اس نے اوڑھی ہوگی
دسمبر کے معاملات کو صرف شاعری میں ہی بیان کرنے کی روایت نہیں بلکہ اسے نثر کے ذریعے بھی لوگ سامنے لے آتے ہیں۔ سوشل میڈیاپرایسی ہی ایک پوسٹ یہ ہے۔
پت جھڑ اور اداسی تو دسمبر کا حسن ہے، دسمبر جو پت جھڑ کی ساعتوں میں پیلے رنگ بھرتا ہےاور اداس دلوں کی کانوں میں بانسری کے دھنیں پھینکتا ہے،سال کے سب موسم خزاں کے مقروض ہیں،اور سارے مہینے دسمبر کے۔
دسمبر کاگذشتہ روزکسی صاحب ذوق نے اس طرح خیرمقدم کیا۔
نومبر کی آخری شام ہے، الوداع کی ساعتیں
کل کریں گے تجھ پہ شاعری، خوش آمدید دسمبر!
نومبر کا آخری دن اپنے دامن میں سمٹ رہا ہے
کل سے ٹھنڈی ہوائوں، گہری سوچوں اور بہت سی یادوں کا مہینہ، دسمبر، شروع ہو رہا ہے۔یہ مہینہ جہاں زندگی میں کئی رنگ اور شاعری لاتا ہے، وہیں ہمیں کئی تلخ قربانیوں (جیسے آرمی پبلک اسکول پشاور کا واقعہ) کی بھی یاد دلاتا ہے۔دعا ہے کہ آنے والا یہ دسمبر آپ کے لیے امن، محبت، اور ہر غم سے نجات کی نوید بن کر آئے، اور آپ کی زندگی کو خوشیوں سے بھر دے۔خوش آمدید دسمبر
دسمبر کوہرطرح کے پرستار حاصل ہیں۔ ایسا ہی ایک انوکھا طرزفکرملاحظہ فرمائیں۔
جانو کے بغیر دسمبر گزر سکتا ہے
مگر چائے کے بغیر نہیں
دسمبر لوٹ آیا ہے اور اسے کہنادسمبر آگیاہے ،اس دردانگیز مہینے کے مقبول جملے ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos