پاکستان میں رواں برس ایچ آئی وی کےکیسز میں تشویشناک حد تک اضافہ

کراچی (رپورٹ :محمد اطہر فاروقی )پاکستان میں رواں برس ایچ آئی وی کےکیسز میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے ۔گزشتہ 4سالوں میں ایچ آئی وی کے 14 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ امسال اکتوبر تک 10 ہزار نئے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔صوبائی سطح پر ناقص حکمت عملی ،بروقت اقدامات نہ ہونے بھی کیسز میں اضافے کی وجہ قراردیا جا رہا ہے۔ماضی میں لاڑکانہ ،حیدرآباد اور حال ہی میں کراچی سائٹ ٹاون میں آوٹ بریک کے بعدبھی متعلقہ حکام عوامی سطح پر آگاہی اور معلومات کی فراہمی بہتر نہ کرسکی ۔رواں برس کیسز میں تشویشناک حد تک اضافے کے باوجود ایڈز کنٹرول پروگرام کا کردار سوالیہ نشان بن گیا۔پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر کے مطابق سندھ میں 50 فیصد سے زائد HIV کیسز غیر محفوظ انجیکشنز کے استعمال سے جڑے ہیں، جس کے لیے فوری آگاہی مہمات اور انفیکشن کنٹرول کے سخت اقدامات ناگزیر ہو چکے ہیں۔تفصیلات کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج یکم دسمبر کو ایڈز کا عالمی دن منایا جاتا ہے ،اس دن بیماری سے متعلق آگاہی اور بچاو کے حوالے سے سیمینار اور ورکس شاپ کا انعقاد کیا جاتا ہے تاہم ایڈز کے عالمی دن سے قبل جاری ہونے والے ڈیٹا نے واضح کیا ہے کہ پاکستان ایشیا کے ان چند ممالک میں شامل ہو چکا ہے جہاں ایچ آئی وی وبا خطرناک رفتار سے پھیل رہی ہے۔نیشنل ایڈز پروگرام کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں سال 2020 میں 34 ہزار ایچ آئی وی کے نئے کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ سال 2024 میں یہ تعداد 48 ہزار تک پہنچ گئی ،4 سالوں میں کیسز کی تعداد 14 ہزار رہی جبکہ وفاقی حکام کے مطابق جنوری تا اکتوبر 2025 کے دوران 10 ہزار کیسز رپورٹ ہوئے مگر اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ بتائی جا رہی ہے کیونکہ اس میں ایک بڑی تعداد بغیر تشخیص کے عام زندگی گزار رہی ہے ۔ نیشنل ایچ آئی وی کے جاری کردہ پلانز اور UNAIDS کی 2025 تخمینی ڈیٹا شیٹ کے مطابق سال 2022 میں نئے کیسز کی تعداد 22ہزار ،سال 2020 میں 34 ہزار اور سال 2024میں 48 ہزار اور اسی حساب سے سال 2025 میں اصل تعداد 48 ہزار سے بھی زیادہ ہوسکتی ہے ۔ماہرین صحت بھی یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ بیماری کی روک تھام، نگرانی اور علاج کی قومی حکمت عملی میں کوئی نمایاں بہتری نہ آنے اور صوبائی سطح پر ایچ آئی وی کی ٹیسٹنگ کٹس بھی کیسز میں اضافے کی وجوہات میں شامل ہے ۔ امت کو سول اسپتال کراچی سے حاصل اعدادوشمار کے مطابق اسپتال میں ایڈز کے 2 الگ سینٹر بنائے گئے ہیں جس میں سے ایک بڑے افراد کے لئے جبکہ دوسرا بچوں کے لئے بنایا گیا ہے ۔سول اسپتال کےاعدادوشمار کے مطابق سال 2006 سےسال 2024 تک 4ہزار 799افراد ایڈز کے مریض سول اسپتال لائے گئے ہیں ،جس میں سے 4ہزار126 بڑے افراد ،539خواتین اور 134 ٹرانس جینڈر شامل ہیں ۔سول اسپتال میں بچوں کے سینٹر میں مجموعی طور پر 418 بچے ایڈز کا شکار ہوئے ہیں جس میں سے 250بچے اور 168 بچیاں شامل ہیں ۔ایچ آئی وی پروگرام میں کام کرنے والے ایک سینئر سابق ڈاکٹر نے بتایا کہ یہ بات تشویش کا باعث ہے کہ ایچ آئی وی/ایڈز پروگرام سندھ نے عالمی یوم ایڈز 2025 کے ایجنڈے اور تھیم کو وہ ترجیح نہیں دی جو اس کی اہمیت کا تقاضا کرتی ہے۔ اس دن کا بنیادی مقصد پسماندہ، کم تعلیم یافتہ اوربنیادی سہولیات سے محروم طبقات میں مؤثر آگاہی، حساسیت اور تشخیص کی اہمیت اُجاگر کرنا ہوتا ہے تاکہ لوگ اپنے ممکنہ خطرات کو سمجھ کر بروقت ٹیسٹنگ کروا سکیں۔ حال ہی میں سائٹ ٹاون کراچی میں بچوں میں سامنے آنے والے ایچ آئی وی کے کیسز، اسی طرح ماضی میں رتوڈیرو (قرب لاڑکانہ) میں 2019 کے دوران جہاں 930 افراد میں ایچ آئی وی (HIV) کی تشخیص ہوئی۔ متاثرین میں سے تقریباً 80 فیصد 5 سال سے کم عمر کے بچے تھے۔ اس انفیکشن کے پھیلاؤ کی بنیادی وجہ غیر محفوظ انجیکشن کے طریقے تھے اور حیدرآباد کے مضافاتی علاقوں مسوبھر گڑی اور اور ہتھری میں ایچ آئی وی کےآوٹ بریک نے واضح کر دیا ہے کہ عوامی سطح پر شعور بیداری اور معلومات کی فراہمی میں شدید خلا موجود ہے۔ ایسے میں یہ ضروری تھا کہ پروگرام عالمی یومِ ایڈز 2025 کو بھرپور انداز میں استعمال کرتے ہوئے ان خطرات سے دوچار طبقات تک رسائی حاصل کرتا، مگر اس حوالے سے مطلوبہ سنجیدگی دیکھنے میں نہیں آئی، جو کہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔اس حوالے سے ایڈز کنٹرول پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر غلام علی بوزدار نے بتایا کہ سندھ میں 50 فیصد سے زائد ایچ آئی وی کیسز غیر محفوظ انجیکشنز کے استعمال سے منسلک ہیں جن کے لیے ہنگامی آگاہی اور انفیکشن کنٹرول کی ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ صوبے میں 34 اے آر ٹی سینٹرز فعال ہیں اور ہر سال ان میں توسیع کی جا رہی ہے۔ مریضوں کی سہولت کے لیے الگ اے آر ٹی مراکز بنانے اور اوقات کار میں اضافے کی تجاویز بھی زیر غور ہیں۔
ایچ آئی وی کیسز”

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔