پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس نے منگل کو نیشنل کمیشن برائے اقلیتی حقوق بل 2025 منظور کرلیا، تاہم قانون میں شامل شق 35 مذہبی سیاسی جماعتوں کے اعتراضات اور خدشات پر نکال دی گئی۔ اس شق سے بظاہر قادیانیوں کو دائرہ پہنچایا جا رہا تھا۔
شق 35 بل میں قانونی بالادستی سے متعلق تھی، جس کے تحت مجوزہ قانون کو دیگر تمام موجودہ قوانین پر فوقیت حاصل ہوجاتی۔ شق میں درج تھا کہ “یہ قانون کسی بھی متضاد موجودہ قانون کے باوجود نافذ العمل رہے گا۔”
جے یو آئی نے اس پر اعتراض کیا کیونکہ اس کے نتیجے میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے والے تمام قوانین غیر موثر ہونے کا خدشہ تھا۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے ایوان میں کہا کہ اس نوعیت کی شق اقلیتی کمیشن کو دیگر قوانین پر غیر مشروط فوقیت دے سکتی تھی، جس سے “ماضی میں طے شدہ آئینی و قانونی فیصلے متاثر ہونے کا امکان پیدا ہوتا”۔
جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے شق 35 کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ قادیانیوں کے حوالے سے 1974 کے آئینی فیصلے پر کوئی ایسا قانونی ابہام پیدا نہیں ہونا چاہیے جسے عدالتوں میں چیلنج کرنے کی بنیاد مل سکے۔
انہوں نے کہ خبردار کیا کہ قادیانیوں کے حوالے سے پنڈورا باکس نہ کھولا جائے۔
وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل پیش کرتے ہوئے کہا کہ مسودے کی تیاری میں مکمل احتیاط برتی گئی اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اس قانون کو 14 سال سے زائد عرصے کے تعطل کے بعد منطقی انجام تک پہنچایا گیا۔
حکومت کا کہنا تھا کہ بل پاکستان کے آئین میں درج غیر مسلم کی تعریف کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے، جس میں عیسائی، ہندو، سکھ، بدھ مت، پارسی، بہائی اور قادیانی و لاہوری گروہ بھی شامل ہیں جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 260 میں وضاحت موجود ہے۔
شق 35 چونکہ کسی بھی متصادم قانون کو غیر مؤثر بنانے کی طاقت رکھتی تھی، اس لیے مذہبی جماعتیں اسے احمدیوں کے آئینی تشخص سے متعلق خصوصی قوانین پر اثر انداز ہونے کا ممکنہ ذریعہ سمجھتی تھیں، جسے حکومت نے اجلاس سے قبل مسودے سے نکال دیا۔
نیا اقلیتی کمیشن 18 رکنی کونسل پر مشتمل ہوگا اور قانون کے نفاذ کے 60 دن کے اندر چیئرپرسن تقرری کا عمل شروع کرنا اسمبلی سیکریٹریٹ کی آئینی ذمہ داری ہوگی۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos