قطر کے دار الحکومت میں 23 ویں دوحہ فورم 2025کا آغاز ہوا۔اس اجلاس کو ’’انصاف ، وعدوں سے حقیقی عملی اقدامات تک‘‘کا عنوان دیا گیا ہے۔ خطے کی صورت حال کے تناظر میں یہ فورم ایک اہم مرحلے پر منعقد ہو رہا ہے جس میں عرب اور دیگر ممالک کے سربراہان، وزرائے خارجہ اور قائدین شریک ہیں۔
دوحہ فورم پہلے ہی روز غزہ امن معاہدے کی معروضی صورت حال پرعرب اور اسلامی ملکوں کے زوردار اسرائیل مخالف مباحثے کا پلیٹ فارم بن گیا۔سب سے پہلے قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی اور مصری وزیرخارجہ نے فلسطینی سرزمین سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا کی ضرورت پر زور دیا ۔اس دوران ترک نمائندے نے بھی جنگ بندی معاہدے کی اہم شقوں پر اظہارخیال کیا ۔یہ تینوں ملک جنگ بندی معاہدے کے ضامن اور ثالث ہیں جسے امریکی صدرٹرمپ نے رواں سال اکتوبر کے دوران بین الاقوامی منظوری کے لیے مصر کے شہرشرم الشیخ میں پیش کیا تھا۔
ثانی نے کہا کہ تقریبا دو ماہ سے جاری غزہ جنگ بندی اُس وقت تک مکمل نہیں سمجھی جائے گی جب تک امریکی اور اقوامِ متحدہ حمایت یافتہ امن منصوبے کے تحت اسرائیلی فوج فلسطینی علاقے سے واپس نہیں چلی جاتی۔
واضح رہے کہ غزہ جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے میں اسرائیل نے غزہ میں اپنی پوزیشنوں سے دستبردار ہونا ہے، عبوری انتظامیہ نے حکمرانی سنبھالنی ہے اور ایک بین الاقوامی استحکام فورس (آئی ایس ایف) کی تعیناتی طے ہے۔
مزید پڑھیں: غزہ امن منصوبے کے دوسرے مرحلے میں کیا ہے؟ نئی تفصیلات منظر عام پر
غزہ جنگ بندی کے ایک اور ضامن ترکیہ کے وزیرخارجہ ہاکان فیدان کا کہناتھاکہ فورس کا پہلا ہدف ہونا چاہیے کہ فلسطینیوں کو اسرائیلیوں سے الگ کرے، یہ ہمارا بنیادی مقصد ہونا چاہیے، پھر باقی مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے ترک وزیرخارجہ نے بتایاکہ سب سے پہلے اور سب سے اہم، فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کے درمیان جنگ کو روکنا ہے؛ اسی لیے ہمیں استحکام فورس کی ضرورت ہے تا کہ وہ سرحد پر اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو الگ کرے، ایک دوسرے پر حملہ کرنے کی اجازت نہ دے۔انہوں نے مزید کہا کہ حماس کو اسلحہ چھوڑنے کے عمل کو حقیقت پسندانہ بنانا چاہیے، سب سے پہلے انٹرنیشنل سٹیبلائزیشن فورس (آئی ایس ایف) اور فلسطینی پولیس فورس کو تشکیل دینا ہوگا، پھر ہمیں انسانی امداد کو آزادانہ طور پر غزہ میں جانے دینا چاہیے، زندگی کو معمول پر لاناچاہیے،، لوگوں کو امید دلانا چاہیے، پھر ہم حماس کے مسئلے کو حل کرنا شروع کر سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: حماس نے ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے پر آمادگی ظاہر کردی
مصر کے وزیر خارجہ بدر عبد العطی کا کہناتھاکہ ہمیں اس فورس کو جلد از جلد زمین پر تعینات کرنے کی ضرورت ہے۔ غزہ کی پٹی اور مغربی کنارہ آزاد فلسطینی ریاست کا اٹوٹ انگ ہیں۔علیحدگی کوئی آپشن نہیں ، انہوں نے مزید کہا کہ فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل یا مشرق وسطیٰ کے لیے کوئی حل یا پائیدار سلامتی اور استحکام نہیں۔س کے علاوہ، سب عارضی حل ہوں گے۔
سعودی وزیرخارجہ منال رضوان کا کہنا تھا کہ جہاں عالمی برادری میں فلسطینی اتھارٹی کو جامع اصلاحاتی عمل میں شامل کرنے کی ضرورت پر بہت زیادہ توجہ دی جا رہی ہے، وہیں اسرائیلی حکومت کی اصلاح خطے میں امن کے لیے سب سے زیادہ ضروری ہے۔فلسطینی پچھلے 30 سال سے اصلاحات کر رہے ہیں۔ صدر محمود عباس نے ازخود ایک مضبوط اصلاحاتی
منصوبہ پیش کیا تھا لیکن حقیقی پائیدار امن و سلامتی حاصل کرنے، تنازعے کے خاتمے،صدر ٹرمپ کے 20 نکاتی منصوبے اور سلامتی کونسل کی قرارداد پر عمل درآمد کرنے کے لیےاسرائیلی حکومت کاقبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اسرائیلی حکومت دو ریاستی حل کی مخالفت کرتی ہے۔اس کے اہلکار مسلسل فلسطینیوں، عربوں کے خلاف، مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کرتے رہتے ہیں لہذا یہ اصل اور اہم اصلاح طلب معاملہ ہے جس کی ہم امید کر رہے ہیں۔
اسرائیلی میڈیاکے مطابق یہ ایک سینئر سعودی شخصیت کی طرف سے اسرائیل پر تازہ ترین تنقید ہے،فلسطینی اتھارٹی اور اس کے اصلاحاتی عمل کے بارے میں رضوان کا دفاع قابل ذکرہے، یہ دیکھتے ہوئے کہ ریاض ان سب سے زیادہ جارحانہ اسٹیک ہولڈرز میں سے ایک رہا ہے جو صدرمحمودعباس پر بدعنوانی اور بدانتظامی کے الزامات کے درمیان ایک جامع اصلاحات میں شامل ہونے پر زور دیتا آیاہے۔
اس سال دوحہ فورم کے ایجنڈے پر چھ اہم موضوعات ہیں ۔عالمی تجارت کا مستقبل، ٹیکنالوجی میں مسابقت، مصنوعی ذہانت اور سپلائی چینز، واشنگٹن اور بیجنگ تعلقات اور غزہ کی صورت حال کے علاوہ صحت کےعالمی مسائل۔
دوحہ فورم اجلاس میں 160 سے زائدملکوں کے 6 ہزار سے زیادہ مندوبین شامل ہیں۔ اس میں وزرائے خارجہ، اعلیٰ سطح سرکاری وفود اور پالیسی ساز شریک ہورہے ہیں۔ فورم کے دوران 125 سیشن ہوں گے، جن میں 471 مقررین خطاب کریں گے۔ اس کے علاوہ کچھ نشستیں نجی اور بند کمرے میں ہوں گی۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos