آسٹریلوی بچوں نےسوشل میڈیا پابندی کو چکمہ دینے کی تیاری کرلی

آسٹریلیامیں ایک اہم سوشل میڈیاپابندی کے قانونی نفاذ کا وقت قریب آگیاہے۔ 10دسمبر کو یہ قانون موثر ہوجائے گا جسے ٹھیک ایک سال پہلے پارلیمانی منظوری دی گئی تھی۔

آسٹریلیامیں تشکیل دیاگیاسخت قانون دنیامیں اس لحاظ سے اپنی نوعیت کی پہلی مثال ہے کہ اس کے تحت بڑی سوشل میڈیا کمپنیوں کو 16 سال سے کم عمربچوں کو اپنے پلیٹ فارم استعمال کرنے سے روکنے کے لیے معقول اقدامات کرنا ہوں گے۔ ایسانہ کرنے کی صورت میں ان پر 50 ملین آسٹریلوی ڈالر(33 ملین امریکی ڈالر) جرمانہ ہو سکتا ہے۔ان اقدامات میںنئے انڈر 16 اکاؤنٹس کو بننے سے روکنا ،انڈر 16 سے تعلق رکھنے والے موجودہ اکاؤنٹس کی شناخت اور غیر فعال کرنا ،عمر کی توثیق اور اگر کوئی اکاؤنٹ غلط ہٹا دیا گیا ہے تو اپیل کرنے کا طریقہ فراہم کرنا شامل ہیں۔ قواعد کو نظر انداز کرنے والے والدین یا بچوں کے لیے کوئی جرمانہ نہیں ہوگا۔ یہ اقدام بچوں کو سوشل میڈیا استعمال کرنے پر مجرم قرار نہیں دیتا ،یہ 16 سال سے کم عمر بچوں کو بغیر اکاؤنٹ کے مواد دیکھنے سے نہیں روکتا اوریہ تمام ڈیجیٹل ٹولز پر لاگو نہیں ہوتا ،ممنوعہ آن لائن ذرائع میں میسجنگ ایپس، گیمز اور ایجوکیشن پلیٹ فارم شامل نہیں۔

پابندی نافذہونے سے پہلے ہی آسٹریلیا میں بچوں نے اسے چکمہ دینے کی تیاری کرلی۔

13 سالہ ایزوبیل کویہ پابندی ختم کرنے میں پانچ منٹ سے بھی کم وقت لگا۔اسنیپ چیٹ(جو دس متاثرہ پلیٹ فارمز میں سے ایک ہے) کی طرف سے ایک اطلاع نے اس کی سکرین کو روشن کر دیا تھا، جس میں متنبہ کیا گیا تھا کہ اس ہفتے جب قانون لاگوہو گا تو اسے روک دیا دیا جائے گا، اگر وہ اپنی عمر 16 سال سے زیادہ ثابت نہیں کرتی۔ایزوبیل کے مطابق مجھے اپنی ماں کی ایک تصویر ملی جسے میں نے اسے کیمرے کے سامنے پھنسا دیا اور اس نے مجھے لاگ ان ہونے دیا۔یہ کہتے ہوئے کہ عمر کی تصدیق کرنے کا شکریہ۔ایزابیل اپنے’ کامیاب تجربے ‘سے خوش ہیں، انہیں یقین ہے کہ پابندی کام نہیں کرے گی،پھربھی اگر مجھ پر پابندی لگ جاتی ہے، تو میں ایک اور ایپ تلاش کروں گی۔

سوشل میڈیا پرایسی ہی بہت سے طریقوں اور تجاویز کی بھرمارہے۔ والدین کے ای میل کے ساتھ سائن اپ کرنے اور ہٹ لسٹ سے باہر پلیٹ فارمز پر جانے سے لے کر وی پی این استعمال کرنے تک، جو صارف کے مقام کو چھپا سکتا ہے۔بہت سے مشورے آسٹریلیامیں نوعمروں تک پہنچ گئے ہیں۔

واضح رہے کہ آسٹریلیا میں پابندی سے متاثرہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمزکی فہرست میں اسنیپ چیٹ، فیس بک، انسٹاگرام، کِک، ریڈڈیٹ، تھریڈز، ٹِک ٹاک، ٹویچ، ایکس اور یوٹیوب شامل ہیں۔فیس بک اور انسٹاگرام نے 4 دسمبر سے 16 سال سے کم عمر کے آسٹریلوی بچوں کے ہزاروں اکاؤنٹس کو بند کرنا شروع کر دیاتھا۔ انسٹاگرام، فیس بک اور تھریڈزکی مالک میٹاکمپنی نے کہا کہ وہ قانون کی تعمیل کے لیے آسٹریلیا میں کم عمر صارفین کو نئے اکاؤنٹس بنانے سے بھی روک رہا ہے۔ایک اندازے کے مطابق نصف ملین اکاؤنٹس کو ہٹائے جانے کی توقع ہے۔میٹا کے ترجمان کا کہناتھاکہ ہم 10 دسمبر تک تمام صارفین کو ہٹانے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں جنہیں ہم 16 سال سے کم عمر سمجھتے ہیں۔

ایک 15 سالہ آسٹریلوی گلوکارہ شار نے کہاکہ مجھے اپنے مرکزی اکاؤنٹ پر4 ہزارفالوورز حاصل کرنے میں اتنا وقت لگا، اور میں ان سب سے محروم ہو جاؤں۔چنانچہ وہ اب اپنے پیروکاروں پر زور دے رہی ہے کہ وہ اس کے ساتھ Lemon8 پر جائیں، یہ ایپ ٹک ٹاک پیرنٹ کمپنی ByteDance کی ملکیت ہے جس پر پابندی نہیں لگائی گئی ۔

نوعمرانفلوئنسر زوئی بھی پابندی کے خلاف تگ ودکررہی ہے۔ اس کے ٹک ٹاک پر48 ہزارفالوورزہیں،اب وہ ، #grwm پوسٹ کرتی ہے (میرے ساتھ تیار ہو جائیں) اور ویڈیوز کو ان باکس کرتی ہے- 16 سال سے کم عمر کا پتہ لگنے سے بچنے کے لیےمشورہ بھی دیتی ہے کہ اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ای میل ایڈریس کو اپنے والدین کے ای میل میں تبدیل کریں۔ (ٹک ٹاک کا کہنا ہے کہ اکاؤنٹ کے نام سے کوئی فرق نہیں پڑتا ،ان کی ٹیکنالوجی اس بات کا پتہ لگا سکتی ہے کہ کون اسے اکثر استعمال کر رہا ہے)۔

آسٹریلیامیں نوعمر صارفین کو برطانیہ سے بھی کچھ ٹپس ملی ہیںجب ان کے برطانوی دوستوں نے سستے ماسک اور ویڈیو گیم کرداروں کی تصاویر کے ذریعے برطانیہ کے آن لائن سیفٹی ایکٹ کی نئی پابندیوں کو چکر دینے کی کوشش کی۔ماہرین کے مطابق ممکنہ طور پر ان چالوں کا پتہ لگانے والی اینٹی سپوفنگ ٹکنالوجی موجودہے یہ دیکھنے کے لیے کہ آیا کوئی حقیقی شخص کیمرے کے سامنے ہے یا نہیں۔

مئی میں حکومت کے لیے کرائے گئے سروے سے معلوم ہواتھا کہ ایک تہائی والدین بھی اپنے بچوں کو پابندی سے بچنے میں مدد کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، اور میلبورن یونیورسٹی کے ایک تجربے سے پتہ چلتا ہے کہ22 ڈالر مالیت کا ہالووین ماسک چہرے کی تشخیص کی ٹیکنالوجی کو شکست دینے کے لیے کافی ہے۔ اسنیپ چیٹ سے اس بارے میں پوچھاگیاتو اس کے ترجمان نے کہا کہ فرم نے پابندی کے تکنیکی چیلنجوںپر مسلسل تشویش کا اظہار کیا ہے،یہ ایک ایسا ہی چیلنج ہے۔

آسٹریلیا میں پابندی شروع ہونے کے بعد اس کا ایک اور حوالے سے پہلا امتحان بھی جلد شروع ہوجائے گا: گرمیوں کی چھٹیاں۔آٹھ ہفتوں تک، نہ کوئی اسکول ہوگا، نہ اساتذہ ہوں گے – اور نہ اسکرولنگ۔لاکھوں بچوں کے لیے، یہ پہلا وقفہ ہوگا جو وہ سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں، یا ان کے لیے دوستوں سے رابطہ کرنے کا آسان طریقہ ہے۔ یہاں تک کہ والدین کے لیے بھی جو پابندی کی حمایت کرتے ہیں، یہ بہت طویل موسم گرما ہو سکتا ہے۔

ماہرین معاملے کے اس پہلوپر بھی سوال اٹھارہے ہیں کہ آیا سوچا گیاہے کہ ہم آف لائن کیا کریں گے؟ کیا ہم نوجوانوں کو کلبوں اورشراب خانوں میں جاکر شراب خریدنے، سگریٹ خریدنے دیں گے۔

پابندی کو نافذ کرنے والی ٹیکنالوجی کے قابل بھروسہ ہونے پربھی تشویش ہے، اس خدشے کے ساتھ کہ یہ کمزور بچوں کو الگ تھلگ کر سکتی ہے اور دوسروں کو ویب کے گہرے، کم ریگولیٹڈ حصوں میں دھکیل سکتی ہے۔

عمر کی یقین دہانی کے اہم طریقوں پر غور کیا گیا جو تکنیکی طور پر ممکن لیکن کوئی بھی فول پروف نہیں نکلا اور سبھی میںخطرات نظرآتے ہیں۔آئی ڈیزسے تصدیق سب سے درست راستہ نظرآیا لیکن اس کے لیے صارفین کو حساس اور اہم دستاویزات حوالے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور پولنگ سے پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر آسٹریلوی سوشل میڈیا فرموں پر بھروسہ نہیں کرتے،البتہ مجوزہ قانون میںسرکاری آئی ڈی اپ لوڈ کرنے کاتقاضا شامل نہیں ۔اسی طرح عمر کا اندازہ، جو صارفین کی آن لائن سرگرمی کی بنیاد پرملتا ہے، اور چہرہ پہچاننے کی ٹیکنالوجی دونوں میں نوعمروں پر قابل اعتماد طریقے سے لاگو ہونے کی درستی کا فقدان پایاگیاہے۔

ویڈیو سیلفیز کا استعمال چہرے کی خصوصیات جیسے جلد اور ہڈیوں کی ساخت کا تجزیہ کرنے کے لیے کیا جاتا ہے تاکہ سیکنڈوں میں عمر کا اندازہ لگایا جا سکے۔تاہم 15 سے 17 سال کی عمر کے افراد اس جانچ کے لیے مشکل ہوسکتے ہیں۔

آسٹریلیا کے انٹرنیٹ ریگولیٹر نے کے مطابق یہ پابندی بگ ٹیک پر لگام لگانے کی عالمی کوشش میں پڑنے والا پہلا ڈومینو ہوگا۔ای سیفٹی کمشنر جولی انمن گرانٹ کا حال ہی میں کہناتھاکہ وہ ابتدائی طور پر سوشل میڈیا سے کم عمر صارفین کو روکنے کےبارے میں فکر مند تھیں، لیکن بڑھتی ہوئی ریگولیٹری تبدیلیاں غیر موثر ثابت ہونے کے بعد اس کی حمایت کرنے لگی ہیں۔سڈنی ڈائیلاگ سائبر سمٹ میں انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کی حکومتیں آسٹریلوی قانون کے نافذ ہونے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں،میں نے ہمیشہ اسے پہلا ڈومینو کہا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ (سوشل میڈیا کےدیو) پیچھے ہٹ گئے۔

ڈیجیٹل فریڈم پروجیکٹ کی قیادت میں دو نوعمروں نے پابندی کو چیلنج بھی کیا ہواہے۔ان کا کہناہے کہ پابندی کا یہ قانون انتہائی حد سے زیادہ اور سیاسی آزادی کے آئینی حق کی خلاف ورزی ہے۔

فیس بک سے وابستہ ایک ماہر نے کہا ہے کہ جرمانے ٹیکنالوجی کمپنیوں کے لیے بہت کم ہیں۔ فیس بک، مثال کے طور پر، عالمی سطح پر اس رقم کو دو گھنٹے کے اندر کماتا ہے۔اس کے لیے یہ پارکنگ کا ٹکٹ ہے۔ حکومت نے اصرار کیا ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کے پاس پابندی کو نافذ کرنے کے لیے پیسہ اور ٹیکنالوجی ہے۔
آسٹریلیا کی مقننہ کے دونو ں ایوانو ں میں یہ بل 29 نومبر2024 کو منظور ہواتھا۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔