اسرائیلی درندگی پرفلم ’’وائس آف ہندرجب‘‘گولڈن گلوب ایوارڈ کے لیے نامزد

غزہ میں اسرائیلی درندگی پر بنائی گئی فلم ’’ وائس آف ہند رجب‘‘ آسکرسے پہلے کے اہم ترین ایوارڈ ’’ گولڈن گلوب ‘‘ کے لیے نامزدہوگئی۔تیونسی ہدایت کارہ کوثربین ہنیہ کی اس فلم کو بہترین غیرملکی فلم یا انگریزی کے علاوہ کسی زبان میں بنائی گئی فلم کے زمرے میں نامزدگی ملی ہے۔

یہ فلم ایک فلسطینی بچی ہند رجب کی زندگی کے آخری لمحات پر مبنی ہے۔

’’ وائس آف ہندرجب‘‘ کوقبل ازیں رواں سال وینس فلم فیسٹیول میں سلور لائن گرینڈ جیوری پرائزبھی مل چکاہے اور اس دوران ریکارڈ 24منٹ تک حاضرین فلم کے موضوع اور مرکزی کردار کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیےکھڑے ہوکر تالیاں بجاتے رہے تھے۔یہ فلم کی پہلی نمائش تھی جس نے شائقین کو آبدیدہ کردیاتھا۔

اس فلم کو بریڈ پٹ، جوکین فینکس، رونی مارا اور الفونسو کوارون جیسے اعلیٰ سطح کے بین الاقوامی فلمی شخصیات کی حمایت اور تائید حاصل ہے۔

ہند رجب 29 جنوری 2024 کو ایک گاڑی پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے غزہ میں شہید ہوئی تھی۔کم سن فلسطینی بچی کی آواز آخری بار ایک فون کال پر سنی گئی جو اس نے زخمی حالت میں ہلال احمر کو کی تھی۔ اس کی آواز درد میں ڈوبی ہوئی تھی۔

ہندرجب کا خاندان غزہ سے نقل مکانی کر رہا تھا جب راستے میں پورے خاندان کو اسرائیلی فوج نے شہید کر دیا۔ اسی موقع پرہند رجب نے ہلال احمر سے مدد مانگی تھی۔تاہم کچھ دیر بعد یہ ننھی سی آواز بھی ہمیشہ کے لیے خاموش ہو گئی۔ معصوم ہندرجب کی اس الم ناک موت نے عالمی توجہ حاصل کی تھی۔ہند رجب کی شہادت جس انداز سے ہوئی وہ واقعہ بین الاقوامی سطح پر فلسطینیوں کی بے بسی کا ایک اہم حوالہ بن گئی اور اس پانچ سالہ بچی کی شہادت کو عالمی سطح پر ذرائع ابلاغ نے بہت توجہ دی تھی۔

فلم کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں بچی کی آخری فون کال کی اصل ریکارڈنگ استعمال ہوئی ہے۔ اس میں فلسطینی ہلال احمر سوسائٹی کے ٹیلی فون آپریٹرز کو دکھایا گیا ہے جو کئی گھنٹوں تک کار میں پھنسی ہند رجب کو تسلی دیتے رہے، اس دوران ہندرجب کی خالہ، ماموں اور 3 کزن جاں بحق ہو چکے تھے۔تقریباً 3 گھنٹے بعد ہلال احمر کو اسرائیل کی طرف سے ایمبولینس بھیجنے کی اجازت ملی، لیکن ایمبولینس موقع پر پہنچنے کے فوراً بعد ہند اور طبی عملے کے درمیان رابطہ منقطع ہو گیا۔اسرائیلی فوج نے ایمبولینس کو بھی تباہ کردیاتھا۔

چند دن بعد بچی کی لاش اس کی فیملی کے افراد کے ساتھ کار میں ملی، 2 طبی اہلکاروں کی باقیات بھی ان کی تباہ شدہ گاڑی سے برآمد ہوئیں۔فلم میں اصل ٹیلی فون کالز شامل کی گئی ہیں جن میں بچی کی دہائی سناتی دیتی ہے کہ ’میں بہت ڈری ہوئی ہوں، پلیز آ جائیں‘۔

تیونسی ہدایت کارہ کوثر بین ہنیہ کاوینس فلم فیسٹیول میں فلم کی نمائش کے موقع پر کہناتھاکہ میں نے پہلی بار جب ہند رجب کی آواز سنی تووہ میرے لیے کسی بھی آواز سے بڑھ کر تھی۔ اس کی آواز نے ہی مجھے فلم بنانے پر مجبور کیا۔انہوں نے کہا کہ ’’ وائس آف ہندرجب‘‘ مظلوم فلسطینیوں کی آواز بنے گی۔ یہ صرف ایک بچی کی آواز نہیں تھی بلکہ پورے غزہ کی فریاد تھی، یہی غصہ اور بے بسی اس فلم کی اصل بنیاد ہے۔ان کا کہناہے کہ جب آپ ہند رجب کی آواز سنتے ہیں تو آپ ایسا محسوس کرتے ہیں جیسے آپ لاچار، بے بس، انتہائی مظلوم ہیں۔

اس واقعے کے بار ے میں معلوم ہونے اور پھر بچی کی آوازسننے کے بعد بین ہنیہ نےہند کی والدہ وسام حمادہ سے بات کی، جنہوں نے اسے ہند رجب کے بارے میںبتایاکہ وہ دانتوں کا ڈاکٹر بننے کے خواب دیکھاکرتی تھی۔ بین ہانیہ نے اپنی کاسٹ کو اکٹھا کیا، جن میں سجا کلیانی، موتاز ملہیس، کلارا خوری اور عامر ہلیل شامل ہیں۔اس فلم کے تمام اداکار فلسطینی ہیں۔

ہلال احمر کے ڈسپیچرز کا کردار ادا کرنے والے فنکاروں نے بتایا کہ انہوں نے ہند رجب کی اصل ریکارڈنگ صرف شوٹنگ کے دوران سنی، جس سے فلم بندی ایک نہایت جذباتی عمل بن گئی۔

وینس میں فلم کے پریمیئرپر شائقین اورہال میں موجود مہمانوں نے پرجوش انداز میں 24 منٹ تک کھڑے ہو کر تالیاں بجائی تھیں، جو فیسٹیول کا سب سے طویل خراج تحسین ثابت ہوا، اس دوران ’فری، فری فلسطین‘ کے نعرے بھی لگائے گئے تھے۔

کوثر بن ہنیہ نے ایوارڈ وصول کرتے ہوئے کہا کہ سینما ہند کو دوبارہ زندگی تو نہیں دے سکتا اور نہ وہ مظالم مٹا سکتا ہے جو اس پر ڈھائے گئے، مگر یہ اس کی آواز کو محفوظ ضرور رکھ سکتا ہے۔ یہ کہانی صرف ہند کی نہیں بلکہ ایک ایسے پورے عوام کی المیہ داستان ہے جو اسرائیلی حکومت کے مجرمانہ جرائم اور اجتماعی نسل کشی کا شکار ہیں۔

فلم ’’وائس آف ہند رجب‘‘کی اقوامِ متحدہ کے نیویارک دفتر میں بھی خصوصی نمائش ہوچکی ہے۔یہ نمائش 4 دسمبر کو کمیٹی آن دی ایکسرسائز آف دی انیلیینیبل رائٹس آف دی فلسطینی پیپل (CEIRPP) کی جانب سے فلم کے امریکی تقسیم کار ویلا کے تعاون سے کی گئی تھی۔

وائس آف ہندرجب کا دیگر 5 فلموں سے مقابلہ ہے۔ایوارڈزکی تقریب 11 دسمبر کومنعقد ہوگی۔اسے بہترین بین الاقوامی فیچر فلم کیلئے تیونس کی باضابطہ آسکر نامزدگی کے طور پر بھی بھیجا گیا ہے۔

ہدایت کارہ کوثر بن ہنیہ نے اپنی فلم Four Daughters کے ذریعے شہرت حاصل کی تھی جو2024 میں بہترین دستاویزی فلم کیلئے آسکر میں نامزد ہوئی تھی۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔