(تحریر: سید وقار جاوید نقوی)
لاہور کو یوں ہی ”زندہ دلوں کا شہر” نہیں کہا جاتا۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں تہذیب بھی سانس لیتی ہے اور موسم بھی۔ جہاں بہار سے پہلے بہار کے رنگ اُتر آتے ہیں اور خزاں میں بھی زندگی کی رمق باقی رہتی ہے۔ اسی لاہور میں ہر سال گلِ داؤدی کی نمائش ایک ایسا تہوار بن کر ابھرتی ہے جس کا انتظار صرف شائقینِ باغ و بہار نہیں بلکہ وہ شہری بھی کرتے ہیں جو زندگی کی یکسانیت سے نکل کر چند لمحے رنگوں کے درمیان گزارنا چاہتے ہیں۔
اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اس برس بھی لاہور میں گلِ داؤدی کی نمائش نے ایک بار پھر شہر کے احساسات کو جگایا ہے۔ یہ نمائش نہ صرف وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے اس وژن کا عملی اظہار ہے جس میں شہریوں کو معیاری تفریح فراہم کرنے کا عزم شامل ہے بلکہ یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ لاہور آج بھی اپنے باغات، پارکوں اور رنگوں کے حوالے سے وہی پرانا لاہور ہے—رونقوں اور مہمان نوازی کا شہر۔

چار دسمبر کو سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے ہارٹی کلچر ایجنسی لاہور کے زیر اہتمام جیلانی پارک جیل روڈ میں اس نمائش کا افتتاح کیا۔ دن بھر کھلتے اور بند ہوتے پھولوں کی طرح سیاسی اور انتظامی رہنما بھی اس رنگین تہوار کا حصہ بنتے رہے۔ صوبائی وزراء رانا سکندر حیات، کاظم علی پیرزادہ، بلال یاسین اور خواجہ عمران نذیر نے بھی نمائش کا دورہ کیا، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ حکومت پنجاب نہ صرف شہر کی سیاسی حرکیات سے باخبر ہے بلکہ عوام کی خوشیوں کے رنگوں سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ چیف سیکرٹری پنجاب زاہد اختر زمان، سیکرٹری ہاؤسنگ نورالامین مینگل اور ڈی جی پی ایچ اے پنجاب ناہید گل بلوچ چیئرمین پی ایچ اے غزالی سلیم بٹ کی موجودگی انتظامی سطح پر ان اقدامات کی تصدیق کرتی ہے جو اس نمائش کو ایک مثال بناتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مرتبہ نمائش بین الاقوامی نگاہوں کی توجہ بھی حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ ترک قونصل جنرل مہمت ایمن شیمشک اور انکی اہلیہ کی آمد نے اس بات کو مزید تقویت دی کہ لاہور کا یہ رنگین چہرہ پاکستان کی ثقافتی سفارت کاری میں بھی اپنا حصہ ڈال رہا ہے۔ ایسے لمحات کسی بھی شہر کی شناخت میں نئے رنگ بھرتے ہیں۔

اگرچہ ہزاروں پھولوں کی ترتیب و آرائش دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے سب کچھ خود بخود ہو گیا ہو مگر حقیقت میں اس نمائش کے پیچھے ایک منظم ٹیم کی کڑی محنت موجود ہے۔ ایم ڈی پی ایچ اے راجہ منصور احمد نہایت باریک بینی سے انتظامات کی نگرانی کر رہے ہیں، جب کہ اے ڈی جی ذیشان نصراللہ رانجھا، ڈائریکٹر ایڈمن سونیا کلیم، ڈائریکٹر فنانس احمد سعید منج، ڈائریکٹر جیلانی پارک فرخ اخلاق اور پراجیکٹ وقار رحمان، شفیق رضا، جلیل احمد ان کی معاونت میں شب و روز مصروف ہیں۔ کسی بھی رنگین منظر کے پیچھے موجود پسِ پردہ کرداروں کو سراہنا بھی ضروری ہے— ان سب کے ساتھ میں پی ایچ اے اور اسکے پارٹنرز سے تعلق رکھنے والے سپروائزری سٹاف، مالی، سکیورٹی عملہ سمیت وہ لوگ جن کے ہاتھوں کی محنت سے پھولوں کی خوشبو ہمارے احساسات کو چھوتی ہے۔

نمائش میں لگے اسٹالز اس بات کا ثبوت ہیں کہ لاہور کے ادارے صرف تعلیمی اور انتظامی سرگرمیوں تک محدود نہیں بلکہ وہ شہریوں کی جمالیاتی تربیت میں بھی حصہ لیتے ہیں۔ ملت ٹریکٹرز سے لے کر ایچی سن کالج اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی تک، ہر اسٹال نہ صرف اپنے ادارے کی نمائندگی کر رہا ہے بلکہ اس شہر کی مجموعی تہذیبی شناخت کو بھی اُجاگر کرتا ہے۔ باغِ جناح اور زون نمبر 5 کے اسٹالز تو جیسے لاہور کی تاریخ کو پھولوں کی زبان میں بیان کر رہے ہوں۔
اور سب سے بڑھ کر—دو سو سے زائد اقسام کے گلِ داؤدی! یہ محض پھول نہیں، بلکہ رنگوں کی وہ بولتی زبان ہیں جو انسان کو لمحہ بھر کے لیے زندگی کی تیزی سے کھینچ کر فطرت کی آغوش میں لے جاتی ہے۔ ہر رنگ، ہر پتی، ہر خوشبو جیسے اپنے اندر کوئی الگ کہانی رکھتی ہے۔ کہیں سفید معصومیت کی علامت ہے، کہیں گہرا پیلا خوشیوں کا پیامبر، کہیں ارغوانی شان و شوکت کا رنگ لیے کھڑا ہے۔ ان پھولوں کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ فطرت کس طرح سادگی میں بھی عظمت اور عظمت میں بھی سادگی پیدا کرتی ہے۔

لاکھوں شہری اس نمائش کو دیکھنے امڈ رہے ہیں۔ لاہور کے ہر گوشے سے لوگ آتے ہیں، لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ لاہور سے باہر کے شہروں سے بھی لوگ باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ یہاں پہنچ رہے ہیں۔ یہ نمائش ایک ایسی کشش رکھتی ہے جس نے اسے علاقائی نہیں بلکہ صوبائی بلکہ قومی سطح کی تقریب بنا دیا ہے، گل داؤدی نمائش کی کامیابی کا ثبوت ہے کہ پرنٹ میڈیا ہو، الیکٹرانک میڈیا یا سوشل میڈیا ہر طرف گل داؤدی نمائش کے چرچے ہیں۔
اگر غور کیا جائے تو ایسی سرگرمیاں کسی بھی شہر کو نہ صرف خوبصورت بناتی ہیں بلکہ اس کے لوگوں کے رویوں میں بھی مثبت تبدیلی لاتی ہیں۔ جب خاندان ایک ساتھ ہنستے، پھولوں کے سٹالز، سنو کارنر، پھولوں سے بنے مجسموں اور فلورل آرٹ نمونوں کے درمیان تصاویر کھنچواتے، بچوں کو رنگوں کی دنیا سے روشناس کراتے ہیں تو یہ صرف تفریح نہیں ہوتی—یہ معاشرتی ہم آہنگی کا منظر بھی ہوتا ہے۔ ایسے مواقع شہریوں کو یاد دلاتے ہیں کہ زندگی کی دوڑ دھوپ میں چند لمحے رک کر خوشبوؤں کو محسوس کرنا بھی ضروری ہے۔
یہ کالم صرف نمائش کا تذکرہ نہیں، بلکہ اس حقیقت کی گواہی ہے کہ لاہور ابھی تک اپنے اصل رنگ نہیں بھولا۔ یہ شہر پھولوں سے محبت کرتا ہے، اور پھول اس شہر پر اپنا حسن نچھاور کرتے ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ نمائش کتنی بڑی ہے؛ سوال یہ ہے کہ ہم ان رنگوں سے کتنا کچھ سیکھتے ہیں۔
فطرت انسان کو صبر، خوبصورتی، توازن اور محبت کا سبق دیتی ہے—لیکن شرط یہ ہے کہ ہم اس کی زبان سمجھنے کی کوشش کریں۔
لاہور کی گلِ داؤدی نمائش اس زبان کا ایک خوبصورت جملہ ہے، ایک ایسا جملہ جو ہر سال ہمارے احساسات کو نئے الفاظ دیتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ لاکھوں لوگ اس کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں —کیونکہ کسی نہ کسی جگہ ہم سب کو ان رنگوں میں اپنا عکس نظر آتا ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos