بانی پی ٹی آئی کی بہنوں نے اپنے ہی اتحادیوں کے پارلیمانی اجلاس کا فیصلہ ہوا میں اڑا دیا، فائل فوٹو
 بانی پی ٹی آئی کی بہنوں نے اپنے ہی اتحادیوں کے پارلیمانی اجلاس کا فیصلہ ہوا میں اڑا دیا، فائل فوٹو

عمران خان کو اڈیالہ سے کون سی جیل منتقل کیا جائے گا؟

امت رپورٹ :

بانی پی ٹی آئی عمران خان کو اڈیالہ جیل سے کون سی دوسری جیل میں منتقل کیا جائے گا؟ اس سلسلے میں مختلف آپشنز زیر غور ہیں۔

یاد رہے کہ حکومت اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقاتوں پر پابندی کا فیصلہ کر چکی ہے۔ کیونکہ حکومت سمجھتی ہے، بانی پی ٹی آئی جیل کو سیاسی دفتر کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور مسلسل ایسے زہریلے بیانات جاری کرتے ہیں جس سے ملک میں انتشار پھیلے۔ دوسری جانب عمران خان کی بہنوں اور کارکنوں کی جانب سے اڈیالہ جیل کے اطراف جمع ہونے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس سلسلے کو ختم کرنے کے لیے عمران خان کو کسی دوسری جیل میں منتقل کرنے پر سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے۔ اس معاملے سے آگاہ ذرائع کے مطابق خاص طور پر منگل کے روز اڈیالہ جیل کے نزدیک ایک بار پھر کارکنوں کی ہلڑ بازی اور عمران خان کی تینوں بہنوں کے وہاں پہنچنے نے بانی پی ٹی آئی کی منتقلی سے متعلق زیر غور معاملے کو عملی جامہ پہنانے کے قریب کر دیا ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل قریباً ایک ماہ بعد عمران خان کی بہنوں کو اس شرط پر ملاقات کی اجازت دی گئی تھی کہ وہ واپس آنے کے بعد کوئی پریس کانفرنس یا سیاسی بیان نہیں دیں گی۔ تاہم عمران خان سے ملاقات کے بعد ان کی بہن نورین نیازی نے اس سمجھوتے کی نہ صرف دھجیاں بکھیر دیں۔ بلکہ عمران سے منسوب ایسا زہریلا بیان دیا کہ جس نے پہلے سے موجود کشیدگی کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر پہنچا دیا۔ اس کے بعد نورین نیازی نے پاکستان دشمن بھارت کے ٹی وی چینل پر بیٹھ کر جو انٹرویو دیا، اس نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔ بعدازاں اسی ملاقات کے حوالے سے عمران خان نے اپنے ایکس اکائونٹ پر کی گئی پوسٹ میں عسکری قیادت کے خلاف جو ہرزہ سرائی کی، اسے پاکستان دشمن بھارتی میڈیا نے ہیڈ لائنز کے طور پر چلایا۔ اس کے بعد ہی حکومت نے فیصلہ کیا کہ اب عمران خان سے جیل میں ہر قسم کی ملاقات پر پابندی ہوگی۔ پی ٹی آئی اور اس کے حامی بعض دانش وروں نے اس حکومتی فیصلے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا ہے۔ تاہم وہ یہ بھول گئے کہ جیل مینوئل کے مطابق کوئی قیدی جیل میں بیٹھ کر سیاسی بیانات نہیں دے سکتا، جس سے ملک میں انتشار پیدا ہو۔ اس کی تفصیل رپورٹ میں آگے جاکر بیان کی جائے گی۔ پہلے اس کا ذکر ہو جائے کہ عمران خان کی اڈیالہ جیل سے منتقلی کا زیرغور منصوبہ اب سنجیدگی کیوں اختیار کر گیا ہے اور ممکنہ طور پر انہیں کس دوسری جیل میں بھیجا جا سکتا ہے۔

حکومتی فیصلے کے بعد پیر کو پی ٹی آئی سمیت اپوزیشن اتحاد کے پارلیمانی پارٹی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ ملاقات کے لیے ورکرز منگل کے روز بہنوں یا وکلا کے ہمراہ اڈیالہ جیل نہیں جائیں گے۔ یہ فیصلہ اس تناظر میں کیا گیا تھا کہ حکومت کو کریک ڈائون کا موقع فراہم نہ کیا جائے۔ کیونکہ حکومت پہلے ہی انتباہ کر چکی تھی کہ اب اڈیالہ جیل کے باہر تماشے یا احتجاج کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ تاہم اپنی پارٹی اور اپوزیشن اتحاد کے اس فیصلہ کو پہلے پی ٹی آئی پنجاب کی روپوش چیف آرگنائزر عالیہ حمزہ نے ہوا میں اڑا دیا اور اپنے ایکس اکائونٹ پر پوسٹ کی کہ تمام رہنما، وکلا اور دیگر لوگ منگل کو دو بجے اڈیالہ جیل پہنچیں۔ اس کے بعد عمران خان کی بہنیں تین سے چار سو کارکنوں کو لے کر اڈیالہ جیل پہنچ گئیں۔ جہاں دوبارہ پرانا تماشا لگایا گیا اور نعرے بازی کی گئی۔

پی ٹی آئی حلقوں میں یہ بات عرصے سے کہی جارہی ہے کہ عمران خان کا کیس خراب کرنے میں ان کی بہنیں پیش پیش ہیں۔ جب اپوزیشن اتحاد نے یہ متفقہ فیصلہ کر لیا تھا کہ منگل کو اڈیالہ جیل بہنوں اور وکلا کے ساتھ کوئی کارکن نہیں جائے گا تو اس کے باوجود کارکنوں کو وہاں لے جانا، اس بات کا اشارہ ہے کہ عمران خان کی بہنیں اور اپنے سوشل میڈیا کے زیر اثر عالیہ حمزہ جیسی پی ٹی آئی قیادت خود چاہتی ہے کہ حالات خراب ہوں اور عمران خان کی اڈیالہ جیل سے منتقلی کی راہ ہموار ہو جائے۔

اسلام آباد میں موجود باخبر ذرائع نے بتایا کہ حکومتی انتباہ کے باوجود منگل کے روز اڈیالہ جیل کے باہر ہونے والے تماشے نے آخرکار حکومت کو اس پر مجبور کر دیا ہے کہ اب عمران خان کو کسی دوسری جیل میں منتقل کر دیا جائے۔ کیونکہ ہر منگل اور جمعرات کو اڈیالہ کے اطراف میں ہونے والے اس تماشے نے قرب و جوار کے رہائشیوں کو اذیت میں مبتلا کر دیا ہے۔ ان دو دنوں میں قرب و جوار کی دکانیں اور اسکول بند رہتے ہیں۔ جبکہ شاہراہ کی بندش سے آمدورفت میں دشواری اور مکینوں کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ علاقہ مکین اس آئے روز کی اذیت سے تنگ آچکے ہیں۔

ذرائع کے مطابق حکومت غور کر رہی ہے کہ اس صورت حال سے نکلنے کے لیے عمران خان کو کسی ایسی جیل میں منتقل کر دیا جائے، جہاں کارکنوں کی رسائی آسان نہ ہو اور قرب و جوار کا علاقہ بھی متاثر نہ ہو۔ اس سلسلے میں ایک آپشن یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو بلوچستان کی کسی جیل میں منتقل کر دیا جائے۔ کیونکہ اس صورت میں عمران خان کی بہنوں اور ان کے ساتھ چلنے والے مخصوص کلٹ کارکنوں کے لیے وہاں ہفتے میں دو بار جانا آسان نہیں ہوگا۔ تاہم اس حوالے سے ایک ٹیکنیکل پرابلم یہ ہے کہ عمران خان کے کیسز اسلام آباد کی حدود میں چل رہے ہیں۔ ہر پیشی پر انہیں وفاقی دارالحکومت لانا آسان نہیں ہوگا۔ تاہم اس کا ایک حل یہ ہے کہ آن لان ویڈیو اسٹریمنگ کے ذریعے ان کی متعلقہ عدالت میں پیشی یقینی بنائی جا سکتی ہے۔

ذرائع کے بقول دوسرا آپشن یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو اسلام آباد، راولپنڈی یا اس کے اطراف کی کسی جیل میں یا کسی ایسے مقام پر واحد قیدی کے طور پر رکھا جا سکتا ہے، جہاں کارکنوں کی رسائی آسان نہ ہو۔ اس سلسلے میں اس کے علاوہ بھی چند آپشنز زیرغور ہیں۔ آنے والے دنوں میں اندازہ ہو جائے گا کہ کون سا آپشن اختیار کیا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کی اڈیالہ جیل سے منتقلی کے حوالے سے زیرغور منصوبے پر کب عمل کیا جاتا ہے؟ اس کا انحصار پی ٹی آئی کے رویے پر ہے۔ اگر اڈیالہ جیل کے باہر کوئی تصادم ہو جاتا ہے، جس کے آثار دکھائی دے رہے ہیں تو پھر تیزی کے ساتھ اس منصوبے پر عمل کر دیا جائے گا۔ تاہم اگر پی ٹی آئی کی پارلیمانی کمیٹی کے دانشمندانہ فیصلوں کو ترجیح دی جاتی ہے اور کسی تصادم سے گریز کیا جاتا ہے تو شاید منتقلی کے معاملے پر نظرثانی ہو جائے۔

عمران خان سے جیل میں ملاقاتوں پر پابندی کا دفاع کرنے والے حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک سو نوے ملین پائونڈ کرپشن کی پاداش میں سزا کاٹنے والے عمران خان کو دوران قید اپنے خاندان، وکلا اور پارٹی کے سیاسی کارکنان سے بھی ملاقاتوں کی سہولت دی جاتی رہی ہے۔ مجموعی طور پر تین سو سے زائد ملاقاتیں کرائی گئیں۔ ان میں ایک سو نواسی ملاقاتیں فیملی کے ساتھ تھیں۔ جبکہ سیاسی رہنمائوں سے درجنوں ملاقاتیں الگ ہیں۔ اگر ان ملاقاتوں کی تعداد کو دیکھا جائے تو تقریباً ہر دوسرے روز ایک ملاقات بنتی ہے۔ کیا یہ سہولت کسی اور سیاسی قیدی کو میسر رہی ہے؟ تاہم بدقسمتی سے حکومت کی جانب سے دی گئی اس رعایت کے باوجود ہر ملاقات ایک ریاست مخالف بیانیے کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔

ملاقاتوں کے بعد ریاست، اس کے اداروں اور قومی و عسکری قیادت کے خلاف اس حد تک ہرزہ سرائی کی گئی کہ وہ پاکستان مخالف بیرونی میڈیا کی شہ سرخیوں کی زینت بنی۔ حالانکہ پاکستان پریزن رولز مجریہ انیس سو اٹھہتر (رول دو سو پینسٹھ) کے مطابق ایک قیدی مجرم کو کسی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے۔ عمران خان نے اپنی ہر ملاقات کو سیاسی بیانیے کے لیے استعمال کیا۔ کیا دنیا کے کسی بھی ملک میں ایک سزا یافتہ قیدی کو اس کی اجازت دی جا سکتی ہے؟

ادھر منگل کی شام آخری اطلاعات آنے تک اڈیالہ جیل کے نزدیک ایک ناکے پر عمران خان کی بہنوں نے کارکنوں کے ہمراہ دھرنا دے رکھا تھا۔ اس موقع پر پولیس کی بھاری نفری موجود تھی۔ ملاقات کا وقت ختم ہونے کے بعد بیرسٹر گوہر اور سلمان اکرم راجہ واپس جا چکے تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔