
تحرِیر : شاہد بخاری
آواز پبلیکیشنز ، کمیٹی چوک ، راولپنڈی کے ندِیم اعجاز کا ممنُون ہوں جنہوں نے چیف ایڈیٹر، ماھنامہ "دستک مری” محمد آصِف مرزا صاحب کی محولہ بالا کتاب بھجوائی جس میں وہ رقمطراز ہیں کہ "دستک مری کا ھر اداریہ اپنے موضُوع کے اعتبار سے معلُومات و راہ نمائی کا ایسا مجمُوعہ ہے جس سے عقل و دلیل کی پھوٹنے والی کِرنیں قاری کے قلب وذھن کے ساتھ ساتھ رُوح کو بھی مُنوّر و سرشار کر دیتی ھیں اور آپ کو قدِیم و جدِید اُردُو آھنگ کی چاشنی واضح طور پر محسوس ھوتی ھے۔
یہ اداریئے حروف ،الفاظ اور بر محل استعمال کِیے گئے اشعار و جملوں کا خزانہ ھی نہیں بلکہ اہلِ مری کے دِل کی آواز کے ساتھ ساتھ مری کی سیاسی، ادبی، علمی، ثقا فتی معلُومات اور "تعمیراتی تخریب کاریوں” کی ایسی تارِیخی دستاویز اور پاکستان کی مکمل تصوِیر ھے جو مستقبل کے لکھاریوں کے لئے کسی انسائیکلوپیڈیا سے کم نھیں۔ مُصنّف کی جُملہ سازی بلکہ عکس بندی ہمیں موصُوف کے تجربات اور مشاہدات کی اُس دنیا میں لے جاتی ھے،جہاں وہ لے جانا چاہتے ہیں ۔ اُردُو اساتذہ کی معیاری تحرِیروں کے آھنگ پر مبنی نثر نگاری کی اس منثُور کہکشاں کو منظرِ عام پر لاکر مِرزا صاحب نے ہماری لسانی تَشنگی کو بُجھانے کا اہتمام کیا ہے ۔ جِس طرح اُستاذ شعرائے کرام کا کلام پڑھنا اور یاد رکھنا ایک فطری شاعر کا خاصا ھوتا ہے ۔ اُسی طرح معیاری نثر کے اسرار و رموز سمجھنے اور لکھنے والے نامور نثر نِگاروں کے شہ پاروں کا مطالعہ ناگُزیر ہے۔ ادبِ عالیہ کی اِس دِل آویز منزل تک پہنچنے کے لیے "دو پاکستان” کی شاھراہ آپ کا سفر آسان بنا دیتی ھے” اور آپ یہ کہنے پر مجبُور ہو جاتے ہیں کہ :
تمھارے ساتھ گزاریں گے زِندگی ساری
تمھارے ساتھ سفرکا پتہ نہِیں چلتا
پہلے پاکستانی اسپرانتو دان علامہ مُضطَر عباسی کے مداحِ دیرینہ جناب آصِف مِرزا کے ہر دلعزِیز مُجلّہ”دستک مری” کی کسی قدر روایتی اور ادارتی تحریریں کم و بیش دو عشروں اور باون شماروں پر پھیلی اور بکھری ہُوئی تھیں، جِن میں بیس برسوں پر مُحِیط دستک کی کاروائی ،انجمن اصلاح معاشرہ کی مجمُوعی کار گزاری کا بھر پور جائزہ ، ملکۂ کوہسار مری کا ترقّی کے نام پر تنزّلی کا سفر اور پھِر وطنِ عزِیز پاکِستان کا دگر گوں احوالِ مسلسل، پردۂ ذھن پر ایک فلم کی طرح چلنا شُرُوع ھو گئے۔ سب سے زیادہ حیرت اس بات پر ہوئی کہ مری و پاکِستان کے حالات اور واقعات میں اس قدر مُماثلت نظر آئی کہ دونوں کو الگ الگ کرنا یا الگ الگ کر کے دیکھنا خاصا دشوار ھو گیا اور پھِر یہ سوچ دامن گِیر ہُوئی کہ الگ الگ کرنے کی ضرُورت بھی کیا ہے ؟ مری پاکستان کا آئینہ ہے جس میں پُورے پاکِستان کو محض ایک نظر میں اور ایک سڑک پر دیکھا جا سکتا ہے وہ سڑک جسے سلیم شوالوی اور یوسف جمِیل جیسے صاحبان نظر شاھراہِ جمال کے رومانی نام سے پُکارتے تھے۔ تاہم یہ ایک الگ حقیقت ہے کہ وہ تصوّراتی شاہراہِ جمال، اب ایک مقامِ دھمال بلکہ مقامِ دھمہ چوکڑی بن چُکی ہے۔ خیر جو بھی سہی، اب یہی آئینہ ہے اور یہ ہماری صُورت ۔ مدیرِ دستک کی آنکھیں مری اور پاکستان پر مُسلسل اشک فشاں رھیں۔

اِس کتاب کے صفحہ 142 کا عنوان ھے "کوئی پوچھنے والا نہیں” گُزشتہ چند برسوں اور "دستک مری” کے شماروں سے مری شہر کی زبُوں حالی ہی موضُوعِ گُفتگُو چلی آ رہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ رونے دھونے اور آہ و زاری سے کسی کے بھی کان پر جُوں تک نہیں رِینگتی۔ اخبارات میں اندرُونِ شہر کے حوالے سے خبریں بھی لگتی رہتی ہیں اور مخدوش عمارات و گلی کوچوں کی نہایت ابتر صُورتحال ،کسی حفاظتی پشتے یا جنگلے کے بغیر ٹُوٹے پھُوٹے موڑوں والے پہاڑی راستوں کی تصاوِیر بھی لگتی رہتی ہیں۔ کبھی کبھار کوئی ٹی۔ وی چینل بھی ھڑبڑا کر اس جانب متوجہ ہوتا ہے اور شہر کی ناگُفتہ بہ حالت پر ایک رپورٹ بھی جاری کر دیتا ہے۔ یُوں یہ کسی طور نہیں کہا جا سکتا کہ مُتعلقہ ادارے اس گھمبِیر صُورتِ حال سے بے خبر ھیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ اُن کی آنکھوں کے سامنے ہمارے شہر کا جو حِصّہ ہوتا ہے وہاں پر گُزشتہ کُچھ مُدّت سے ہر وقت تعمِیر و ترقی کا کوئی نہ کوئی کام ہو رہا ہوتا ہے۔ سڑکیں بار بار اُدھیڑ کر نِت نئے طریقوں سے بنائی جا رہی ہوتی ہیں، دِیوار کے اُوپر دِیوار اور ریلِنگ کے اُوپر ریلِنگ نصب کی جا رہی ہوتی ہے اور پھِر اِدھر کم و بیش سال بھر سے قیامِ پاکِستان سے پہلے کے نو آبادیاتی یا یُوں کہہ لِیجئے انگریزوں کے دور کی یادیں تازہ کرنے کے لئے مصنُوعی طرِیقے اِختیار کر کے نئی عمارتوں کو پرانا رنگ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن یہ خیال کِسی کو نہِیں آتا کہ اصلی پرانا رنگ تو سرکاری عمّال کی شرافت، دیانت اور احساسِ فرض شناسی تھا، گلی کُوچوں کی مثالی صفائی تھی۔ میُونسپل بائی لاز کی پابندی تھی ۔ یہ باتیں تو قِصّہ پارِینہ ہو چُکیں ۔ اب پیسے اس بات پر لگائے جا رہے ہیں کہ شہر کا ایک مخصُوص حِصّہ پُرانا کیسے نظر آئے؟
خلقِ خدا کی گھات میں۔۔۔
درد مند، اِنسان دوست مِرزا صاحب لِکھتے ہیں ” ہمارے مُلک میں دو طبقے پائے جاتے ہیں ایک مُختصر سی حقِیر لیکِن طاقتور اقلِیّت پر مُشتمِل مراعات یافتہ طبقہ جسے اشرافیہ کے” مفہُوم باختہ” لفظ سے پکارا جاتا ہے اور دُوسری جانب نان و نمک سے بھی ناطہ توڑتا بدن گداختہ اکثریتی طبقہ کہ جو معاشی استحصال کے بے رحم تھپیڑوں کو سہتے سہتے، اس حد تک تار تار ہو چُکا ہے کہ زخموں کی ٹِیسیں رُوح تک جا پہنچی ہیں۔۔۔ جس مُعاشرے میں سرمایہ کاری، سیاست کا ، یا سیاست، سرمایہ کاری کا رُوپ دھار لے اور رہنما، راہ زن بن جائیں وہاں بھُوک اُگتی غُربت کی فصل کیُوں نہ لہلہائے؟؟ کِسی نے کہا تھا کہ جو شخص روپیہ چُرائے وہ چور ہے اور جو ایک لاکھ چرائے وہ فن کار ہے۔ ایسے فنکار ہی ہمارے ہاں عِزّت دار سمجھے جاتے ہیں ۔ کم رقم کے چوروں سے نفرت کی جاتی ھے اور بڑے ڈاکوؤں کو سر آنکھوں پر بِٹھایا جاتا ھے۔۔۔۔ قیامِ پاکِستان کے بعد یہ طبقہ یہاں زیادہ مالدار، طاقتور اور ضرر رساں ہو گیا بے ، اِتنا زیادہ کہ غریب اور مفلُوک الحال لوگ خُود کشی، خُود سوزی اور خُود فروشی پر مجبُور کر دِئیے گئے ھیں۔۔۔
سیر کر دنیاکی۔۔۔۔
میں فِکر مند آصِف مِرزا نے لِکھا بے” سچ تو یہ ہے کہ اُس دینے والے نے تو کہِیں بھی ہمیں اپنی عنایات سے محرُوم نہِیں رکھا لیکِن جیسے باقی شعبوں میں ہم نا سپاسی اور نالائقی کے مرتکب ہو رہے ہیں اِس میدان میں بھی ہم نے بے تدبِیری اور بد اِنتظامی کے جھنڈے گاڑ رکھے ہیں۔ "سیاحتِ پاکِستان نمبر”کے زیرِ نظر شمارے میں قرِیب قرِیب تمام لِکھنے والوں نے جہاں ایک طرف قُدرت کی فیاضیوں کا والہانہ ذِکر کِیا ہے، وہاں دُوسری جانب سیّاحت سے مُتعلّق محکمے کی کارکردگی بلکہ عدم کارکردگی پر کئی سوالات اٹھائے ہیں اِن سوالات کے جوابات کی ذِمّہ داری کِن پر آتی ہے؟؟ ہمارے مُلک میں نائب قاصد سے لے کر ریاست کے اعلیٰ ترین منصب پر بیٹھے لوگوں میں سے کوئی بھی کسی بات کے لیے اپنی ذات کو جواب دہ نہِیں سمجھتا۔ البتہ جہاں تک مُلکی وسائل کی لُوٹ کھسُوٹ کی دوڑ میں حِصّہ لینے کا تعلق ہے وہ جِس جوش و خروش سے لِیا جا رہا ہے اُس کے میں آپ سب گواہ ہیں لیکِن محض گواہ ہونے سے کیا ہوتا ہے ایک شاعر نے اپنے شعر کے ذریعے گواہ کا انجام بتلا دیا ہے”
میں چُپ رہا تو مُجھے مار دے گا میرا ضمِیر
گواہی دی تو عدالت میں مارا جاؤں گا
المختصر زیرِ نظر کِتاب کے باون کے باون ادارئیے مری کا شہر آشوب ہیں، مُلک کا نوحہ ہیں، جِنہیں پڑھ کر نہایت دُکھ سے لِکھنا پڑ رہا ھے :
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گُریز تھا
ورنہ ہمیں جو درد تھے وہ لا دوا نہ تھے
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos