غزہ میں فلسطینی جنگ جو تنظیم حماس کے خلاف مکمل ناکامی کے بعد اسرائیل نے ” نیاغزہ ” منصوبے کی سہولت کاری شروع کررکھی ہے جس کے تحت حماس مخالف گروہوں کو مضبوط کیا جارہاہے۔یہ تل ابیب کی بعد ازجنگ حکمت عملی ہے۔اس وقت جاری جنگ بندی معاہدے کے دوسرے مرحلے کوصیہونی عزائم کے تحت استعمال کاطریقہ تلاش کرنے کی کوشش بھی ہورہی ہے جس میں ا سرائیلیِ کنٹرول کے علاقوں میں سرگرم حماس مخالف مسلح گروہوں نے کہا ہے کہ وہ حماس کے خلاف لڑائی جاری رکھیں گے۔ان گروہوں نے یہ بھی بتایا کہ 10اکتوبر کو جنگ بندی کے بعد سے ان کی صفوں میں بھرتی ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ غزہ کی پٹی کے مستقبل میں ایک مستقل کردار کے خواہاں ہیں۔
مصر کی تین سکیورٹی اور فوجی شخصیات نے بتایا کہ اسرائیل کے حمایت یافتہ یہ گروہ جنگ بندی کے بعد سے زیادہ سرگرم ہو ئے ہیں۔ ان کے مطابق اب ان گروہوں کے جنگجوں کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ چکی ہے، ان میں 400افراد نے جنگ بندی کے بعد شمولیت اختیار کی۔
یہ دھڑے واضح طورپر اسرائیل کی زبان بول رہے ہیں۔خان یونس کے علاقے میں موجود حماس مخالف ایک دھڑے کے سربراہ حسام الاستال نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔ انہوں نے کہاکہ ہمارا منصوبہ، نیا غزہ ،آگے بڑھے گا۔الاستال نے اسرائیل سے کسی فوجی مدد کو تسلیم کرنے سے انکار کیا، لیکن یہ ضرور مانا کہ خوراک اور دوسری ضروریات کی فراہمی کے لیے ان کے اسرائیل سے رابطے موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنگ بندی کے بعد ان کے گروہ میں نئی بھرتیاں ہوئیں اور اب اس میں کئی سو افراد شامل ہیں جن میں جنگجو اور عام شہری دونوں شامل ہیں۔
دوسری طرف یاسر ابو شباب کی قیادت میں کام کرنے والی ”القوات الشعبیہ”(پاپولر فورسز)کے قریب ایک ذریعے نے بتایا کہ اس گروہ میں بھی وسعت آئی ہے۔
اگرچہ یہ مسلح گروہ ابھی تعداد میں کم اور مقامی نوعیت کے ہیں، لیکن ان کے منظرعام پر آنے سے حماس پر دبائو میں اضافہ ہوا ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے جون میں یہ اعتراف کیا تھا کہ اسرائیل نے حماس مخالف گروہوں کی مدد کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے "قبائلی گروہوں کو فعال کیا ہے
امریکی حکام کی جانب سے کہا گیا کہ امریکہ کا ان حماس مخالف گروہوں کے ساتھ کوئی با ضابطہ رابطہ نہیں۔ ایک امریکی اہل کار نے کہا کہ ہم ان دھڑوں کو فنڈنگ یا مدد فراہم نہیں کرتے۔اہل کارنے مزید کہا کہ امریکہ غزہ میں کامیاب یا ناکام فریقوں کا انتخاب نہیں کرے گا ساتھ ہی انہوں نے زور دیا کہ غزہ کے مستقبل میں حماس کا کوئی کردار نہیں ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ غزہ کی حکمرانی کا فیصلہ خود فلسطینی کریں گے۔
فتح تحریک کے ترجمان نے بھی اس بات پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کے حمایت یافتہ کسی بھی مسلح گروہ کو قبول نہیں کرتے، یہ گروہ فلسطینی عوام اور ان کے مسئلے سے کوئی تعلق نہیں رکھتے۔
روئٹرزکے مطابق ان گروہوں کے ابھرنے سے، اگرچہ یہ چھوٹے اور مقامی ہیں، حماس پر دبائو میں اضافہ ہوا ہے جو دو سالہ جنگ سے متاثرہ غزہ کو مستحکم اور متحد کرنے کی کوششوں کو پیچیدہ بنا سکتا ہے۔
دوسرے مرحلے کے مطابق اسرائیل غزہ کی پٹی کے موجودہ علاقوں سے نکلے گا، ایک عبوری حکومت قائم ہو گی، بین الاقوامی استحکام فورس تعینات ہوگی اور حماس کو غیر مسلح کیا جائے گا۔ تاہم اسرائیلی چیف آف اسٹاف ایال زامیر نے کہا کہ موجودہ”ییلو لائن”نہ صرف نئی سرحدی لائن ہے بلکہ یہ بستیوں کے لیے دفاع اور حملے کا محاذ بھی ہے۔ نیتن یاہو کے
مطابق دوسرا مرحلہ بہت جلدشروع ہو سکتا ہے، تاہم یہ زیادہ پیچیدہ ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos