سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے پر فوجی عدالت سے 14 برس قید کی سزا پانے والے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کیخلاف فیلڈجنرل کورٹ مارشل کا عمل 15 ماہ تک جاری رہا۔ لیکن ان کی سیاسی سرگرمیوں کا سلسلہ کئی برسوں پر محیط ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق ملزم کے خلاف 4 الزامات پر کارروائی کی گئی، ان الزامات میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال اور متعلقہ افراد کو ناجائز نقصان پہنچانا شامل ہیں۔
آئی ایس پی آر کا کہنا ہےکہ ملزم کی سیاسی عناصرکے ساتھ ملی بھگت، سیاسی افراتفری اور عدم استحکام کے معاملات الگ سے دیکھے جارہے ہیں۔
اگرچہ فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے فیض آباد حمید کے جرائم کی تفصیل جاری نہیں کی تاہم جنرل فیض حمید کا کسی سیاسی سرگرمی کے حوالے سے پہلی بار نام فیض آباد دھرنے کے موقع پر منظر عام پر آیا جب ان کے حوالے سے حکومت اور کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے درمیان معاہدہ کرانےکی بات سامنے آئی۔
27 نومبر2017 کو حکومت پاکستان اور کالعدم تحریک لبیک کے درمیان معاہدےکے آخر میں ’بوساطت میجر جنرل فیض حمید‘ لکھا گیا تھا۔
2018 کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی حکومت نے 2019 میں فیض حمید کو سربراہ آئی ایس آئی مقرر کیا اور وہ 2 سال سے زائد عرصے کے لیے اس عہدے پر رہے۔
بعدازاں کالعدم تحریک لبیک سے معاہدے کے معاملے پر سپریم کورٹ نے فیصلے میں ایسے افسران کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا، فیض حمید پر سیاسی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے اپنےحلف کی پاسداری نہ کرنےکا الزام بھی لگا، اسی دور میں سیاسی انتقام،گرفتاریوں، وفاداریوں کی تبدیلی کے الزامات بھی سامنے آئے۔
سابق وزیراعظم نواز شریف نےبھی تقریروں میں فیض حمید پر سنگین نوعیت کے الزامات عائدکیے، لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے دور میں سیاسی مداخلت کے بھی الزامات سامنے آئے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے بھی فیض حمید پر مداخلت کے الزامات لگائے تھے۔
کابل میں طالبان کی آمدکے 3 ہفتے بعد فیض حمید کی دورہ کابل میں کافی کپ کے ساتھ تصویرپر شدید تنقید ہوئی۔
پی ٹی آئی دورِ حکومت میں فیض حمید پر پی ٹی آئی کے مخالفین کو جیلوں میں ڈالنےکے الزامات لگے، پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں قانون سازی کے لیے اسمبلی اجلاسوں میں اراکین کی حاضری پوری کرانےکابھی الزام لگا، ساتھ ہی ان پر بجٹ منظور کرانے میں بھی ملوث رہنےکا الزام لگا۔
2017 اور 2018 میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی نے بھی فیض حمید پر مداخلت کے الزامات لگائے۔
لیفٹیننٹ جنر ل (ر) فیض حمید کو 12 اگست 2024 کو فوجی تحویل میں لیا گیا تھا اور ان کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کی گئی تھی۔
فیض حمید کے خلاف کارروائی سپریم کورٹ کی ہدایت پرنجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے معاملے پر شکایات کے بعد شروع کی گئی تھی، سپریم کورٹ کےاحکامات کی روشنی میں فیض حمید کے خلاف ایک تفصیلی کورٹ آف انکوائری ہوئی۔
29 نومبر 2022 کو لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔
گزشتہ سال 10 دسمبر کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے تحت فیض حمیدکوباضابطہ طور پر چارج شیٹ کیا گیا تھا۔
ان چارجز میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، آفیشل سکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے ریاست کے تحفظ اور مفاد کو نقصان پہنچانا، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال اور افراد کو ناجائز نقصان پہنچانا شامل تھا۔
بتایا گیا تھا کہ فیض حمیدپرتشدد اور بدامنی کے متعدد واقعات میں 9 مئی سے جڑے واقعات بھی شامل تفتیش ہیں، ان متعدد پرتشدد واقعات میں مذموم سیاسی عناصر کی ایما اور ملی بھگت بھی شامل تفتیش ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos