فائل فوٹو
فائل فوٹو

ماں کے دودھ کی اہمیت اور فروغ کے لیے ملک گیر مہم کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے کہا ہے کہ قرآن و سنت کی واضح تعلیمات کے مطابق ماں کا دودھ پلانا ایک دینی حکم اور قومی ذمے داری ہے، اور اسی بنیاد پر حکومت ایک ملک گیر تحریک شروع کرے گی تاکہ فارمولا دودھ کے غیر ضروری استعمال اور اس سے جڑی قابلِ تدارک نومولود اموات کا خاتمہ کیا جا سکے۔

وفاقی وزارت مذہبی امور اور یونیسیف کے تعاون سے منعقدہ قومی مشاورتی اجلاس ’قرآنی تعلیمات اور ارشادات نبوی کی روشنی میں ماں کے دودھ کی اہمیت‘ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہر سال ایسے ہزاروں بچے اسہال، نمونیا اور غذائی قلت کے باعث جان سے جاتے ہیں کیونکہ انہیں بغیر طبی ضرورت کے ماں کا دودھ ترک کر دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب اللہ تعالیٰ نے دو سال تک دودھ پلانے کا واضح حکم دیا ہے تو بلاوجہ اس سے انحراف گناہ کے مترادف ہے۔

انہوں نے ملک بھر کے علما سے اپیل کی کہ وہ جمعہ خطبات میں کم از کم پانچ منٹ ماں کے دودھ کی دینی، سماجی اور صحت عامہ کے حوالے سے اہمیت پر مختص کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ وزارت مذہبی امور، یونیسیف کے تعاون سے علما، کمیونٹی لیڈرز اور مقامی نمائندوں کو منظم کرے گی تاکہ فارمولا دودھ کی تجارتی تشہیر کا مقابلہ کیا جا سکے اور ماں کے دودھ کو مذہبی، اخلاقی اور صحت بخش فریضے کے طور پر دوبارہ زندہ کیا جا سکے۔

اجلاس میں چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل علامہ راغب نعیمی، چیئرمین پاکستان علما کونسل علامہ طاہر اشرفی، محمد بخش، ڈاکٹر شاہد، مختلف مکاتب فکر کے علما، مسیحی، ہندو اور سکھ برادری کے نمائندے، یونیسیف کی ڈپٹی ریپریزنٹیٹو شرمیلہ رسول اور دیگر ماہرین صحت شریک تھے۔

اجلاس میں یونیسیف کی نمائندہ فہمیدہ خان کی جانب سے پیش کردہ مشترکہ اعلامیہ متفقہ طور پر منظور کیا گیا، جس میں علما کی فعال مذہبی رہنمائی، کمیونٹی آگاہی، فارمولا دودھ کی تشہیر کی سخت نگرانی اور ماؤں کے لیے باعزت دودھ پلانے کی سہولیات پر زور دیا گیا۔

چیرمین اسلامی نظریاتی کونسل علامہ راغب نعیمی نے بتایا کہ پاکستان میں سالانہ تقریباً 60 لاکھ بچے پیدا ہوتے ہیں جن میں صرف دو ہزار ایسے ہیں جنہیں طبی بنیادوں پر فارمولا فیڈنگ کی ضرورت پڑتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ قدرت ہر بچے کو مکمل رزق کے ساتھ دنیا میں بھیجتی ہے جو نہ صرف اسہال اور نمونیا سے بچاتا ہے بلکہ ذہنی نشوونما کو مضبوط کرتا ہے۔ انہوں نے فارمولا دودھ پر انحصار کو قوم کی بدقسمتی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستانی خاندان ہر سال 110 ارب روپے سے زائد فارمولا دودھ پر خرچ کر رہے ہیں، جبکہ قرآن دودھ پلانے کی مدت دو سال سے 30 ماہ تک واضح کرتا ہے۔

انہوں نے مساجد میں خواتین کے لیے نماز اور دودھ پلانے کی باوقار جگہیں مخصوص کرنے اور دفاتر میں ایسی سہولتیں قائم کرنے کا مطالبہ کیا تاکہ مائیں اطمینان کے ساتھ بچوں کو دودھ پلا سکیں۔

یونیسیف کی ڈپٹی نمائندہ شرمیلہ رسول نے کہا کہ پاکستان میں تقریباً 40 فیصد بچے اسٹنٹڈ ہیں اور روزانہ سینکڑوں نومولود قابلِ تدارک وجوہات کے باعث جان سے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مؤثر دودھ پلانے کے ذریعے اموات میں واضح کمی لائی جا سکتی ہے اور ملک فارمولا دودھ پر خرچ ہونے والے 900 ملین ڈالر کی خطیر رقم بچا سکتا ہے۔ انہوں نے اسے ماحول اور ترقی کا مسئلہ بھی قرار دیا، یہ کہتے ہوئے کہ فارمولا دودھ کی تیاری پانی کے وسیع استعمال کے باعث ملک کے محدود وسائل پر دباؤ بڑھاتی ہے۔

علامہ طاہر اشرفی نے کہا کہ دو سال تک دودھ پلانا فطری وقفہ ولادت کا ذریعہ بھی ہے، جو ماں اور بچے دونوں کی صحت کو محفوظ رکھتا ہے۔ انہوں نے ان کلینکس اور سینٹرز کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا جو خواتین کو ماں کا دودھ ترک کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔

ماہرین صحت ڈاکٹر صبا شجاع، ڈاکٹر محمد سلمان اور پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کے ڈاکٹر مقبول حسین نے نوزائیدہ بچوں کو پہلے ایک گھنٹے میں ماں کا دودھ پلانے اور پہلے چھ ماہ تک صرف ماں کے دودھ پر رکھنے کی اہمیت اجاگر کی۔ ان کا کہنا تھا کہ فارمولا فیڈنگ انفیکشن اور طویل مدتی بیماریوں کے خطرات بڑھاتی ہے۔

اس موقع پر ہونے والے مباحثے میں مولانا ہارون رشید، علامہ عارف حسین، پیر ممتاز احمد نظامی، مولانا سمیع اللہ آغا، ڈاکٹر علی طارق اور اقلیتی برادری کے نمائندوں نے بھی اسے مشترکہ مذہبی، سماجی اور صحت عامہ کی ذمہ داری قرار دیتے ہوئے ملک گیر تحریک کی حمایت کی-

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔