آیا صوفیہ اور ترک ادب

(عبیداللہ کیہر)
سامان ہوٹل میں رکھ کر باہر نکلے تو استنبول کا موسم ابر آلود ہو رہا تھا۔ ہم آق سرائے اسٹیشن سے سلطان احمد جانے کیلئے میٹرو میں سوار ہوگئے۔ آق سرائے سے سلطان احمد تک کا راستہ تاریخی اور قابل دید مناظر سے بھرپور ہے۔ استنبول یونیورسٹی کا اولڈ کیمپس، عثمانی دور کے حمام، بایزید مینار، مصری بازار، قسطنطائن کا زیر زمین آبی محل، سلیمانیہ مسجد، نیلی مسجد، آیا صوفیہ اور توپ کاپی محل … یہ سب مقامات اسی راستے کے اطراف میں موجود ہیں۔ اس لئے استنبول آنے والے سیاح زیادہ تر یہیں گھومتے نظر آتے ہیں۔ میٹرو نے ہمیں لالہ لی، یونیورسٹی، چیمبرلی تاش، بایزید اور کپالی چارشی کے اسٹیشنوں سے ہوتے ہوئے بیس منٹ میں سلطان احمد اسٹیشن پہنچا دیا۔ جیسے ہی باہر آئے تو اپنے سامنے کھڑی کئی تاریخی اور عظیم الشان عمارات کو دیکھ کر یوں لگا جیسے ہم میٹرو میں نہیں بلکہ کسی ٹائم مشین میں بیٹھ کر کسی ماضی کے دور میں آ گئے ہوں ۔


میٹرو اسٹیشن کے عین سامنے آیا صوفیہ کی بلند و بالا عمارت فضا پر چھائی ہوئی تھی۔ درمیان میں باغات اور دوسری طرف بحیرہ مرمرہ کے ساحل پر مسجد سلطان احمد کے پرشکوہ گنبد و مینار ایستادہ تھے۔ ان دونوں مساجد کے بیچ بازنطینی دور کی یادگاریں، عثمانی دور کا قدیم حمام اور ایک خوبصورت سبیل تھی۔ باغات کے اطراف میں کئی اور تاریخی عمارات بھی کھڑی ہیں۔ مسجدآیا صوفیہ کے سامنے والا راستہ آگے توپ کاپی محل کی طرف چلا جاتا ہے۔ ہم دونوں کچھ دیر تو وہیں کھڑے ہونقوں کی طرح یہ سب دیکھتے رہے اور پھرآیا صوفیہ کے عظیم معبد کی طرف بڑھ گئے۔

 


عثمانیوں نے جب اپنی سلطنت کو وسعت دینے کا سلسلہ شروع کیا تو ہر طرف فتوحات نے ان کے قدیم چومے اور وہ یورپ، ایشیا اور افریقہ میں آگے بڑھتے چلے گئے۔ آبنائے گیلی پولی کو عبور کر کے یورپ میں قدم رکھا توسلطنت عثمانیہ کی حدیں آسٹریا تک جا پہنچیں۔ کچھ ہی عرصے میں بلقان کے تقریباً سارے ممالک عثمانی سلطنت میں شامل ہوگئے جن میں یونان، البانیہ، یوگو سلاویہ، مقدونیہ، ہنگری، بلغاریہ اور رومانیہ شامل تھے۔ دوسری طرف شمالی افریقہ میں مصر، لیبیا، تیونس اور الجزائر کے ممالک بھی عثمانی سلطنت کا حصہ بنے۔ جبکہ ایشیا میں خلیج فارس اور بحیرہ احمر کے درمیان پورا جزیرہ نمائے عرب بشمول سرزمینِ حجاز اور مکہ و مدینہ بھی سلطنت عثمانیہ میں شامل تھے۔ مگر عثمانی فتوحات کے عین قلب میں، قسطنطنیہ کا یہ شہر پندرھویں صدی تک سلطنت عثمانیہ کے زیر نگیں نہ آ سکا تھا۔ قسطنطنیہ وہ واحد شہر تھا جس کی فتح کو پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف ضروری قرار دیا تھا، بلکہ اس کو فتح کرنے والوں کیلئے جنت کی بشارت بھی دی تھی۔ چنانچہ اس کے پہلے محاصرے میں میزبانِ رسول حضرت ابو ایوب انصاریؓ بھی شریک ہوئے، مگر محاصرہ طول کھینچتا گیا اور فتح نصیب نہ ہوسکی۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا اسی محاصرے میں قسطنطنیہ کی فصیل کے پاس ہی انتقال ہوا، جہاں آج بھی ان کا روضہ موجود ہے۔
صلیبیوں کیلئے قسطنطنیہ کی مرکزی اہمیت تھی اور یورپ کے تقریباً تمام عیسائی ممالک اسے بحری راستوں سے امداد مہیا کر کے مضبوط اور نا قابل تسخیر بنائے ہوئے تھے۔ زمینی اطراف سے اسے ایک بلندو بالا فصیل تحفظ فراہم کرتی تھی جبکہ سمندری اطراف سے بحیرۂ مرمرہ اور خلیج زرّیں نے اسے محفوظ کیا ہوا تھا۔ عثمانی بھی مختلف ادوار میں قسطنطنیہ کو فتح کرنے کیلئے اس کے محاصرے کرتے رہے مگر کامیاب نہ ہو سکے۔ بالآخر سلطان مراد دوم کا کم عمری میں ہی حکمراں بن جانے والا بیٹا سلطان محمد اس شہر کو فتح کرنے میں کامیاب ہوا اور اسے رہتی دنیا تک ”فاتح“ کا خطاب مل گیا۔ جب سلطان محمد کی فاتح فوجیں شہر میں داخل ہوئیں تو وہ سیدھا شہر کے قلب میں واقع عیسائی دنیا کے اس عظیم معبد آیا صوفیہ میں آیا۔ یہاں اس نے ربِ کائنات کی بارگاہ میں دورکعت نفل شکرانے کے ادا کئے اور اس گرجا کو مسجد میں تبدیل کرنے کا حکم جاری کر دیا۔ چونکہ دو سو سال پہلے قرطبہ میں مسلمانوں کی عظیم الشان مسجد کو بھی عیسائیوں نے گرجے میں بدل دیا تھا، اس لئے سلطان فاتح کے اس اقدام پر کوئی احتجاج نہ ہوسکا۔
آیا صوفیہ کی اولین تعمیر چوتھی صدی عیسوی میں شہنشاہ قسطنطین اوّل کے دور میں ہوئی، مگراس عمارت کو کچھ ہی عرصے بعد آنے والے زلزلے نے مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ پھرقسطنطین دوم نے اسے نئے سرے سے تعمیر کروایا، مگر چھٹی صدی عیسوی میں آگ لگنے سے یہ عمارت ایک بار پھر منہدم ہو گئی۔ بالآخر چھٹی صدی عیسوی میں ہی بازنطینی شہنشاہ جسٹینین اوّل نے نئے سرے سے اس کی موجودہ عمارت کی بنیاد رکھی۔ اس کی تعمیر کا کام سن 537ء میں مکمل ہوا اور پھر ایک ہزار سال تک اسے دنیا کے سب سے بڑے گرجا کی حیثیت حاصل رہی۔
آیاصوفیہ کے مرکزی گنبد کا قطر 102 فٹ ہے، جبکہ فرش سے اس کی بلندی 168 فٹ ہے، یعنی تقریباً آج کی ایک سترہ منزلہ عمارت جتنی۔ اس کے مرکزی ہال کے گرد بلند راہداریوں کے اونچے محرابی راستوں میں داخل ہوں تو عمارت کی وسعت اور بلندی کو دیکھ کر سرچکرا جاتا ہے۔ سولہویں صدی عیسوی میں معمار سنان نے آیا صوفیہ کی عمارت کے چاروں گوشوں پر بلند نوکیلے مینار کھڑے کر دیئے۔ یہ مینار آج بھی قائم ہیں اورآیاصوفیہ کو نمایاں طور پر ایک مسجد کا روپ دیتے ہیں۔ انیسویں صدی عیسوی میں عثمانیوں نے مرکزی ہال میں ایک خوبصورت محراب اور منبر کا اضافہ کر دیا۔ مرکزی ہال کے چاروں گوشوں میں چار گول دھاتی پلیٹیں آویزاں کی گئیں جن پر خوبصورت خطاطی میں چاروں خلفائے راشدینؓ کے نام تحریر تھے۔ یہ پلیٹیں آج بھی اسی انداز میں موجود ہیں۔ اس کے محراب و منبر کچھ ترچھے ہیں کیونکہ قبلہ اس عمارت کی سیدھ سے مطابقت نہیں رکھتا۔
1453ء سے 1935ء تک تقریباً پانچ سو سال آیا صوفیہ کی یہ عظیم عمارت ایک مسجد کی حیثیت میں قائم رہی۔ یہاں سے روزانہ پانچ وقت خالق کائنات کی کبریائی کا اعلان ہوتا رہا۔ حتیٰ کہ بیسویں صدی کے شروع میں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے پر مصطفیٰ کمال پاشا نے آیا صوفیہ کی مسجد کی حیثیت ختم کر کے اسے ایک میوزیم قرار دیا۔ اُس دن اِس عبادت گاہ میں داخل ہونے کیلئے ہمیں دس لیرا کا ٹکٹ خرید نا پڑا کیونکہ اب یہ خدا کا گھر نہیں بلکہ ایک عجائب گھر تھا۔
آیا صوفیہ جب تک گرجا رہا اس کی دیواروں پر عیسائیوں کی مقدس شبیہیں بھی موجود رہیں۔ عثمانیوں نے مسجد کے تقدس کو قائم کرنے کیلئے ان شبیہوں کوایک خاص روغن سے ڈھک دیا تھا۔ لیکن 1935ء میں جب اس کی مسجد کی حیثیت کو ختم کیا گیا تو کمال پاشا نے یہ روغن صاف کروا کے ان شبیہوں کو دوبارہ اجاگر کروا دیا۔ چنانچہ ہمیں یہاں اسلام و عیسائیت کا ایک عجیب امتزاج نظر آیا۔ ایک طرف خوبصورت منبر پر سنہرے حروف میں قرآنی آیات اور اللہ، رسول اور صحابہ کے نام نظر آئے، جبکہ دوسری طرف دیواروں پہ حضرت عیسیٰ، حضرت مریم اور معروف مسیحی راہبوں کی شبیہیں بھی موجود تھیں۔
جب سے مصطفیٰ کمال پاشا نے یہاں نماز پڑھنا ممنوع قرار دیا تھا، تب سے یہاں نماز پڑھنے کی کوشش کرنے والے کو گرفتار کیا جاتا تھا۔ لیکن ہر سال فتح قسطنطنیہ کی سالگرہ کے موقع پر کوئی نہ کوئی متوالا یہاں نماز پڑھنے کی کوشش ضرور کرتا اور گرفتار ہوتا۔ اُس دن ہمارے دل میں بھی خواہش آئی کہ آیا صوفیہ کے فرش پر آج ہم بھی خدائے واحد کے سامنے سر بہ سجود ہوں، مگر اس حسرت کو دل میں لئے آیا صوفیہ سے باہر نکل آئے۔
ترک ادب میں آیا صوفیہ محض ایک عمارت کا نام نہیں۔ یہاں یہ عثمانی فتوحات، روحانیت، سیاست، قومی شناخت اور جلال و جمال کی علامت ہے۔ صدیوں سے ترک ادیب اور شاعر اسے اپنا موضوع بناتے آئے ہیں۔ خصوصاً عثمانی دور میں تو آیا صوفیہ سلطنت کی شان و شوکت اور فتح و نصرت کی علامت رہی ہے۔ 2020ء میں آیا صوفیہ کے دوبارہ مسجد بننے کے بعد ترک شعر و ادب میں اسے احیائے اسلام کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔
ترک شاعر ناظم حکمت نے اسے انسانی تہذیب کے مشترکہ ورثے کے طور پر دیکھا، جب کہ دینی رجحان رکھنے والے ادیبوں اور شاعروں نے اسے مسجد کی حیثیت میں ہی مکمل اور باوقار سمجھا۔
ناظم حکمت کہتا ہے :آیا صوفیہ کے پتھروں پر وقت کا سفر کبھی نہیں رکتا۔ یہ نہ ایک گرجا ہے اور نہ ہی صرف مسجد، بلکہ یہ پوری انسانیت کا دل ہے۔
نعبی نے کہا :آیا صوفیہ کے نور سے آسمان روشن ہو گیا کہ یہ فتح و نصرت کی ایک تجلی ہے۔
شیخ غالب نے کہا کہ : آیا صوفیہ خود ایک پورا جہان ہے، اس کا گنبد آسمانوں کا ہمراز ہے اور اس کے اندر انسان کی روح اپنی حقیقت کو پا لیتی ہے۔
عارف نہاد نے کہا کہ :آیا صوفیہ تو فتوحات کی تصدیقی مہر ہے اور اس کے پتھروں میں آج بھی فاتح کا دل دھڑکتا ہے۔
اور نجیب فاضل کہتا ہے :جس دن آیا صوفیہ کے دروازے کھلیں گے، اس دن اس کی چھاؤں میں دل پھر سے زندہ ہو جائیں گے۔
٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔