افغانستان سے سرحدپار دہشت گردی کی قیمت کیا ہے؟

حالیہ واقعات اور ان کے نتائج کا تناظر یہ سوال اٹھاتاہے کہ کابل کی طالبان حکومت کس قیمت پر پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے اپنی سرزمین استعمال ہونے دے رہی ہے؟
جواب ہے اپنے شہریوں کی زندگیوں کی قیمت پر۔

اقوام متحدہ کاادارہ ورلڈ فوڈ پروگرام پہلی بار افغانستان میں خوراک و امدادی سامان پہنچانے سے قاصر ہو گیا ۔گذشتہ روز ادارے نے کہا ہے کہ اسے فوری طور پر 460 ملین ڈالر کی خطیر رقم کی ضرورت ہے تاکہ 60 لاکھ کی تعداد میں افغانیوں کو غذائی قلت سے بچانے کے لیے خوراک فراہم کر سکے۔ورلڈ فوڈ پروگرام کے ڈائریکٹر فوڈ سیکیورٹی نے ایک پریس بریفنگ کے دوران جنیوا میں بتایا ہے کہ ان کے پاس صرف 12 فیصد فنڈز موجود ہیں۔ اس لیے فنڈز کا نہ ہونا بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ 37 لاکھ افغان بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ اس لیے بلاشبہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ بچے موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔

کئی دہائیوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ یہ ادارہ افغانستان کے لیے موسم سرما میں خوراک کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے کوئی پروگرام شروع نہیں کر پا رہا۔ خوراک کا معاملہ افغانستان میں قومی سطح پر ہنگامی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ڈبلیو ایف پی کے مطابق افغان بچے کئی دہائیوں سے غذائی قلت کا سامنا کر رہے ہیں مگر اس وقت صورت حال سنگین تر ہے اور اس کی وجہ بین الاقوامی سطح سے فنڈنگ میں کمی ہوجانا ہے۔ڈبلیو ایف پی کے مطابق افغانستان میں 17 ملین لوگوں کو بھوک کا سامنا ہے۔ جن میں 3 ملین کا اضافہ پچھلے سال ہوا ہے۔ کیونکہ لاکھوں کی تعداد میں افغانی دو ہمسایہ ملکوں ایران اور پاکستان سے ڈی پورٹ کر کے واپس بھیجے گئے ہیں۔

ادھرکابل حکومت ہرروزیہ دعوے کرتی ہے کہ پاکستان سے تجارتی راستے بندہونے کے باوجود کئی دوسرے ملکوں سے لین دین جاری ہے بلکہ اس میں اضافہ ہورہاہے۔حال ہی میں وزارت صنعت و تجارت نے افغانستان اور روس کے درمیان تجارت میں قابل ذکر اضافے کا اعلان کیا ۔وزارت کے مطابق رواں شمسی سال کے پہلے آٹھ ماہ میں دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت کی مالیت 366 ملین ڈالر تک پہنچ گئی۔ گزشتہ سال اسی عرصے کے دوران تجارت کا حجم 174 ملین ڈالر رہا جو 192 ملین ڈالر کے اضافے کی نشاندہی کرتا ہے۔

افغان میڈیا گذشتہ ایک ماہ سے ایسی خبریں شائع کررہاہے جن سے تاثر ملتا ہے کہ متبادل ذرائع میسر ہیں اور درآمدات وبرآمدات کا سلسلہ مستحکم ہے۔نومبر کے وسط میں وزارت صنعت و تجارت نے اعلان کیا تھا کہ وسطی ایشیائی ممالک اور ایران کے راستے افغانستان کے تجارتی حجم میں اضافہ ہوا ہے۔ ترجمان نے کہا کہ امارت اسلامیہ چابہار بندرگاہ کے فوائد سے استفادہ کر رہی ہے تاکہ پاکستان کی کراسنگ پر بار بار رکاوٹوں سے بچا جا سکے اور اسلام آباد سے سیاسی دباؤ کو کم کیا جا سکے۔ ٹرانزٹ معاہدوں کو متبادل راہداریوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔

افغان میڈیاپر یہ رپورٹ بھی شائع ہوئی کہ تجارتی سرحدی گزرگاہوں کی بار بار بندش کے بعد، امارت اسلامیہ کے عہدیداروں نے اعلان کیا ہےکہ سیاسی دباؤ صرف اس صورت میں موثر ہے جب افغانستان کے پاس متبادل تجارتی راستوں کی کمی ہو۔افغانستان چیمبر آف کامرس اینڈ انویسٹمنٹ (ACCI) کے مطابق ملکی جغرافیائی حیثیت پاکستان پر تجارتی انحصار کم کرنے کے وسیع مواقع فراہم کرتی ہے۔ طےشدہ متبادل راستوں میں ایران کی چابہار بندرگاہ، چین کے لیے واخان کوریڈور، وسطی ایشیائی ممالک، فضائی راہداری اور علاقائی ریل رابطے شامل ہیں۔2روزقبل وزارت دیہی بحالی اور ترقی نے اطلاع دی ہے کہ واخان راہداری میں بجری بچھانے کا 70 فیصد کام، جو 120 کلومیٹر پر محیط ہے، مکمل ہو چکا ہے۔ اگلے شمسی سال کے آخر تک بجری کا مرحلہ مکمل کرنے کی کوششیں جاری ہیں جس کے بعد بنیادی تعمیراتی کام شروع ہو جائے گا۔وزارت کے ترجمان، نورالہدی عدیل نے کہاکہ تکمیل کے بعد یہ منصوبہ افغان تاجروں کے لیے تجارت میں نمایاں طور پر سہولت فراہم کرے گا اور واخان راہداری افغانستان اور چین دونوں کے لیے باہمی اقتصادی فوائد کی حامل ہے۔

حال میں افغانستان کے وزیرصنعت وتجارت نے کاروباری تعلقات بڑھانے کے لیے بھارت کا 5 روزہ دور ہ بھی کیا۔لیکن اس کے اختتام پر کوئی ایسا واضح،مشترکہ اعلامیہ سامنے نہیں آیا جس کی بنیادپر کہا جاسکتاکہ نئی دہلی نے کابل کی مدد کرنے کا کوئی قابل ذکر اقدام شروع کردیا ہے۔تجزیہ کاروں کے مطابق وزیرصنعت کا دورہ بھارت ناکام ہی کہا جاسکتاہے۔دیگر علاقائی ملکوں سے بھی تاحال افغانستان کو اس حوالے سے کوئی ایسی مددنہیں ملی جو اس کے عوام کو فاقوں اور افلاس کے منہ سے نکالنے میں معاون ثابت ہو۔
پاکستان کی طرف سے افغانستان کے ساتھ متعدد تجارتی راستے اکتوبر میں بندکردیئے گئے تھے۔اس بندش کی وجہ افغانستان سے تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں کی بلاروک ٹوک آمد اور پاکستانی سیکیورٹی فورسز پرحملوں کا پے درپے سلسلہ تھا۔دہشت گردی کے مسلسل واقعات کے بعد پاک فوج نے افغانستان میں تخریب کاروں کے ٹھکانوں پر کارروائی کی جس کے باعث کشیدگی بڑھ گئی ۔

دونوں ملکوں کے درمیان تنائو پیداہونے پر دوست ملکوں متحد ہ عرب امارات،قطر اور ترکیہ نے فریقین میں ثالثی شروع کی۔ اس مقصدکے لیے پہلے دوحہ اور پھر استنبول میں مذاکرات ہوئے ۔ بات چیت کے تمام ادوار غیر نتیجہ خیزرہے کیوں کہ کابل اس امرکی ضمانت اور تحریری یقین دہانی کرانے پر تیارنہیں کہ وہ دہشت گردوں کو اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے سے روکے گا۔بعدازاں سعودیہ نے بھی مذاکرات کا اہتما م کیا لیکن مسئلہ حل نہ ہوسکا۔پاک،افغان مذاکرات کا آخری مرحلہ سعودی دارالحکومت ریاض میں منعقد ہواجس کانتیجہ صرف عبوری جنگ بندی میں توسیع پر اتفاق تھا۔

حال ہی میں پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو آگاہ کیا ہے کہ افغان سرزمین سے اٹھنے والی دہشت گردی پاکستان کی سلامتی کے لیےسب سے بڑا اور سنگین خطرہہے۔ سلامتی کونسل میں افغانستان کی صورتِ حال پر بحث کے دوران پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے کہاکہ وہ دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں اور انہیں سرحد پار آزادانہ کارروائیوں کی اجازت دے رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ افغانستان دہشت گرد گروہوں اور پراکسیز کی محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے، جس کے تباہ کن نتائج سب سے زیادہ اس کے پڑوسی ممالک، خصوصاً پاکستان، کو بھگتنے پڑ رہے ہیں۔
اسی دوران ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آبادمیں وزیراعظم شہبازشریف کا کہناتھاکہ دہشت گردی کا ایک نیا خدشہ افغانستان سے جنم لے رہا ہے، اس لیے عالمی برادری کو چاہیے کہ افغان حکومت پر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے دباؤ ڈالے۔انہوں نے خبردار کیا کہ افغانستان سے ابھرتے دہشت گردی کے خطرات پر عالمی برادری کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے اور افغان حکام کو اپنی ذمہ داریاں نبھانے پر آمادہ کرنا ہوگا۔

یہ صورت حال کس طرح افغانستان میں عوام کو متاثر کررہی ہے؟
پاکستان کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کے بعد طالبان حکومت کے نائب وزیر اعظم ملا عبدالغنی برادر نے پاکستان سے اودیات کی خریداری پر دو ماہ کی پابندی عائد کی۔ کچھ ہفتے قبل ملا بردار نے تاجروں اور عوام پر زور دیا تھا کہ وہ پاکستان کے بجائے دوسری ملک سے ادویات خریدیں۔اس سے قبل افغانستان میں دستیاب دو تہائی ادویات پاکستان سے درآمد کی جاتی تھیں۔برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق دو ماہ سے سرحد بند ہونے کے بعد کابل میںشہریوںنےبتایا کہ یہاں ادویات کی قلت ہے اور ضروری ادویات کی قیمتوں میں اضافہ بھی ہوا ہے۔افغانستان میں بھی کچھ ادویات بنتی ہیں لیکن 70 فیصد سے زائد ادویات پاکستان سے آتی ہیں۔ افغان عوام دہائیوں سے پاکستانی ادویات سے پر اعتماد کرتے ہیں۔ایک خریدارکا کہناتھاکہ میں نے اپنی والدہ کی دوا 900 افغانی (3850 پاکستانی روپے) میں خریدی تھی جو اب 1150 افغانی (4900 پاکستانی روپے) میں ملی ہے، سب ہی افراد مہنگی دوائوں سے پریشان ہیں۔

اقتصادی ماہرین کے مطابق تجارتی بندش سے معاشی، سماجی اور ریاستی طور پر سب سے زیادہ نقصان میں افغانستان ہے، اس کی 70 سے 80 فیصد تجارت پاکستان کی سڑکوں اور بندرگاہوں پر منحصر ہے، افغانستان میں سامان کراچی کے راستے 3 سے 4 دن میں پہنچتا ہے ، ایران کے راستے سے 6 سے 8 دن میں پہنچے گا اور وسطی ایشیائی ممالک کے راستے تجارتی سامان کو افغانستان کیلئے 30 دن سے بھی زیادہ لگ جائیں گے۔طورخم کی بندش سے ایک ماہ میں افغانستان کو 45 ملین ڈالر کا نقصان ہوا چند ہفتوں میں افغانستان کیلئے تمام سرحدوں کا مجموعی نقصان 200 ملین ڈالر سے تجاوز کرگیا۔ذرائع کے مطابق بارڈر پر 5 ہزار سے زائد ٹرک پھنسے جس کے سبب افغان فصلیں و پھل، جو پاکستان میں منڈی کے انتظار میں تھے وہ ضائع ہو گئے ، ایران کے راستے تجارتی لاگت 50 سے 60 فیصد بڑھ گئی اور ہر کنٹینر پر 2,500 ڈالر اضافی کرایہ لگا، افغانستان میں ادویات کی ترسیل بھی متاثر ہوئی کیونکہ افغانستان میں 50 فیصد سے زائد ادویات پاکستان کے راستے جاتی تھیں، متبادل راستے سست، مہنگے اور غیر محفوظ ہیں اور افغانستان کی کمزور معیشت یہ بوجھ برداشت نہیں کرسکتی۔2 لاکھ سے زائد خاندان جو اسمگلنگ، بیک فلو اور انڈر انوائسنگ سے وابستہ تھے بے روزگار ہوگئے۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ طالبان کے ایسے فیصلوں نے افغانستان میں انسانی امداد تک رسائی مزید مشکل بنادی ہے، جب وہاں کی نصف سے زیادہ آبادی پہلے ہی انسانی امداد پر انحصار کرتی ہے۔پاکستان کا مؤقف ہے کہ وہ افغان عوام کی انسانی بہبود اور تجارت کی بحالی کے لیے تعاون پر تیار ہے۔ حکام نے یاد دلایا کہ پاکستان نے دہائیوں تک افغانستان کو انسانی، معاشی اور تجارتی سہولتیں فراہم کیں، جن میں بندرگاہ تک رسائی، ٹرانزٹ ٹریڈ اور مہاجرین کی میزبانی شامل ہے۔دوسری جانب طالبان حکام نے نہ صرف ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے انکار کیا بلکہ الٹا پاکستان کو نشانہ بناتے ہوئے افغان شہریوں کو ملک چھوڑنے کے احکامات بھی جاری کیے۔

تازہ ترین پیش رفت میں،پاکستان نے اتوار کے روز افغان طالبان پر زور دیا کہ وہ عسکریت پسند گروپوں سےلاتعلقی اختیارکرے۔ افغانستان پر مرکوز تہران میں منعقدہ کثیر القومی اجلاس میں غیر ملکی مداخلت کے بجائے علاقائی تعاون کی ضرورت پر زور دیاگیا۔ پڑوسی ممالک بشمول روس کے افغانستان کے لیے خصوصی نمائندوں کے اجلاس میں کابل سے مثبت اقدامات کا مطالبہ کیا گیا۔اس اجلاس میں طالبان کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی، لیکن انہوں نے شرکت سے انکار کر دیا۔

ایرانی دارالحکومت میں ہونے والے اعلیٰ سطح اجتماع میں پاکستان، چین، روس، تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان کے خصوصی نمائندوں نے مشترکہ سیکورٹی خدشات اور افغانستان کے ڈی فیکٹو حکام کے ساتھ بات چیت کے لیے حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا۔افغانستان کے لیے پاکستان کے نمائندہ خصوصی محمد صادق نے افغان سرزمین سے پیدادہشت گردی کے مستقل خطرے پر زور دیتے ہوئے اسلا م آباد کا موقف واضح کیا۔انہوں نے کہاکہ افغان سرزمین سے دہشت گردی کا مسلسل خطرہ خطے کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔

مسئلہ صرف پاکستان کو درپیش نہیں۔ نومبر کے آخری ہفتے میں افغانستان سے وسطی ایشیائی ریاست جمہوریہ تاجکستا ن میں بھی ڈرون حملہ ہوا جس نے 3 چینیو ں سمیت 5 افرادکی جانیں لے لیں۔تاجک وزارت خارجہ نے اس پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھاکہ تاجکستان افغانستان کے ساتھ سرحدی علاقوں میں سکیورٹی اور استحکام برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن اس کے باوجود بھی افغانستان کی سرزمین پر موجود جرائم پیشہ گروہوں کی تباہ کُن کارروائیاں جاری ہیں۔
تاجکستان کے افغانستان میں طالبان کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہیں اور حالیہ مہینوں میں متعدد بار سرحدی جھڑپیں ہو چکی ہیں۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔