’’ بینائی کا ناخدا‘‘۔تیسری دنیامیں لاکھوں انسانوں کی بصارت لوٹانے والا ڈاکٹر

جنوبی ایشیاکے ایک چھوٹے سے ملک نیپال میں آنکھوں کا ایک معالج ، ماہر امراض چشم اور جراح 4 دہائیوں سے لوگوں میں روشنی بانٹ رہاہے۔اسے ’’ بینائی کا ناخدا‘‘(گاڈ آف سائٹ)کا لقب دیاگیا ہے۔ ڈاکٹر سندوک روئت اب تک 1 لاکھ سے زیادہ آنکھوں کی بصارت لوٹا چکے ہیں۔آج انہیں ایک شہرہ آفاق ڈاکٹر کے طورپر ساری دنیا جانتی ہے۔ ڈاکٹر سندوک روئت اب اپنے ملک نیپال کو تحفظ چشم کی جدیدسہولیات کا عالمی مرکز بنانے جارہے ہیں۔ تل گنگا انسٹی ٹیوٹ آف اوپتھلمولوجی میں،جسے انہوں نے تقریباً 30 سال قبل کھٹمنڈومیں قائم کیا تھا،میں آنکھوں کی دیکھ بھال اور موتیا کے لیے سستے لینز تیار کیے جا ئیں گے۔

روئت کو امید ہے کہ آنکھوں کی پائیدار اور سستی دیکھ بھال کا یہ ماڈل ملکی سرحدوں سے باہرکی دنیاکوبھی فائدہ پہنچائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ اگر ترجیحات کو برقرار رکھا جائے، معیا اور پائیداری کے لحاظ سے ، توجن ممالک کو دنیا ترقی پذیرسمجھتی ہے وہ طبی کارگذاری میں اہم کھلاڑی بن سکتے ہیں۔

روئت کو ’’ بینائی کا ناخدا‘‘ لقب کیسے ملا ،اس کی کہانی بھی دلچسپ ہے۔17 سال پہلے انڈونیشیا میں مریضوں کے ایک ٹرک پر آپریشن کرنے کے اگلے دن، وہ ان کی پٹیاں اتارنے کے لیے واپس سائٹ پر آیا۔ ایک خاتون، جن کی عمر تقریباً 60 سال تھی، موتیا اترنے ہونے سے اندھی ہو گئی تھیں۔ جب ان کی پٹیاں اتار دی گئیں تو وہ خود پرقابونہ رکھ پائیں۔ وہ اچھلنے اورخوشی سے چیخنے لگیں، واضح طور پر ڈاکٹر کو ایسی زبان میں کچھ بتانے لگی جو وہ نہیں سمجھتے تھے۔ایک رضاکار نے ترجمہ کیا’’آپ بینائی کے نا خدا ہیں جو مجھے بینائی دینے آئے ہیں‘‘۔

اس لقب کی گونج بین الاقوامی پریس تک پہنچی اور پھرتیزی سے پھیل گئی۔ 71 سالہ رویت کو یہ سن کر اچھا لگتا ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ یہ ایک ذمہ داری بھی ساتھ لاتا ہے۔ دنیا بھر میں مزید لوگوں کی مدد کے لیے کام کرتے رہنے کا دبائو۔

1980 کی دہائی میں ایک نوجوان ڈاکٹر کے طور پر، نئی دہلی سے امراض چشم کی تربیت لینے کے بعد، رویت نے نیپالی نظام صحت میں ایک خلا دیکھا۔اس وقت میسر موتیا کی روایتی سرجری طویل تھی اور جب کسی مریض کے دھندلائے قدرتی لینز کو ہٹایا جاتا تو اسے مصنوعی لینز سے تبدیل نہیں کیا جاتا تھا۔مریض دور تک دیکھنے کے لیے موٹے شیشے پہننے پر مجبور ہوتے تھے اور شیشوں کے بغیر، وہ اندھے ہوتے۔

روئت نے یہ حالات دیکھ کر نیویارک اور لندن میں دستیاب سرجری کو اپنے ملک میں بھی رائج کرنے کا سوچا۔تب مغرب میں ایک نئی تیکنیک پر تجربا ت کیے جارہے تھے جس کے ذریعے الٹراسونک لہروں کو استعمال میں لایا جاتا۔ روئت نے اسی تیکنیک پر کام کرکے اسے اپنے اندازمیں تشکیل دیا ۔ 2006 کے ایک مطالعہ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ ان کا طریقہ مغربی متبادل کی طرح موثر تھا، لیکن یہ نمایاں طور پر تیزرفتار،سستا اور کم ٹیکنالوجی پر منحصربھی تھا۔پھران لینزکو ایک آسٹریلوی ماہر امراض چشم دوست کی مددسے اپنے انسٹی ٹیوٹ میں تیار کرناشروع کردیا۔ابتدامیں ان کی قیمت 50ڈالرتھی ،جوبتدریج کم ہوتے ہوئے اب 4 ڈالر پر آگئی ہے۔یہ تمام لینزغریب اور پس ماندہ لوگوں تک پہنچے ہیں۔انہوںنے بہت سی تنظیموں اور غیر منافع بخش تنظیموں کی بنیاد رکھی جنہوں نے ان کے مشن کو آگے بڑھایا ہے۔ مثال کے طور پر کیور بلائنڈنس پروجیکٹ، امریکہ اور نیپال میں دفاتر کے ساتھ، دنیا بھر میں 19 ملین مریضوں کی اسکریننگ اور آپریشن کر چکا ہے۔

رویت نے اپنی تکنیک سکھانے کے لیے بہت سےملکوں کا سفر کیا ہے۔اس دوران وہ ویت نام بھی گئے اور پڑھایا۔اس کے کئی برس بعدانہیں ویتنام سے ایک پیکج ملا ۔ جب اسے کھولا تو ایک تحریری نوٹ اور سنگ مرمر کے خوبصورت گھوڑے کا مجسمہ ملا۔ نوٹ میں صرف یہ لکھا تھا کہ گھوڑے کو ایک ایسے مریض نے نقش کیا تھا جس کا ڈاکٹر رویت کے طالب علم نے آپریشن کیا ۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔