ادارۂ فروغ قومی زبان اور لوک ورثہ کے اشتراک سے لوک ورثہ کے میڈیا سینٹر میں ایک روزہ بین الاقوامی کانفرنس بہ عنوان "فارسی، تاجک ثقافتی ورثہ اور جنوبی ایشیا میں صوفیانہ تعلیمات ” منعقد ہوئی۔کانفرنس میں پاکستان کی جانب سے ڈاکٹر امبر یاسمین اور ڈاکٹر رابعہ کیانی، ڈاکٹر راشد حمید نے مقالات پیش کیے ۔ تاجکستان کی جانب سے ڈاکٹر مبارک شاہ شمس، شاعرہ ثریا حسن سلطان، لکھاری صلاح الدین زادہ اور پروفیسر ضمیرہ غفور نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
ادارۂ فروغِ قومی زبان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر راشد حمید نے خیر مقدمی کلمات ادا کرتے ہوئے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور تاجک وفد کو خوش آمدید کہا۔ اُنھوں نے کہا کہ اقوام کے مابین تہذیبی مکالمہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ایسے میں تاجکستان کے وفد کی پاکستا ن آمد خوش آئند ہے۔ ادب زبان اور فکر لوگوں کو صدیوں تک جوڑے رکھتی ہے۔ شاہراہ ریشم محض تجارت کا ذریعہ نہیں بلکہ علمی ، ادبی اور روحانی رابطہ بھی ہے۔تاجک فارسی اور پاکستان میں بولی اور سمجھی جانے والی فارسی جنوبی ایشیا کا ایک رُخ تاجکستان کا ادب محض علاقائی نہیں بلکہ علمی عظمت کی علامت ہے۔ جب سویت یونین ختم ہوا تو اس وقت تاجکستان نے اپنی زبان ، روایت اور ثقافت کی حفاظت کی۔ انھوں نے مزید کہا کہ پاکستان اور تاجکستان کے مضبوط ثقافتی تعلقات کو نوجوان نسل میں منتقل کرتے ہوئے ہمیں مشترکہ علمی، ادبی اور فکری ہم آہنگی کو فروغ دینا چاہیے۔
نمل یونیورسٹی کی ڈاکٹر امبر یاسمین نے کہا کہ دونوں ممالک کے سیاسی و ثقافتی تعلقات بہت اہم ہیں۔ انھیں مزید نکھارنے کی ضرورت ہے۔ انھوں نے کہا کہ رودکی ہو یا اقبال ، ہمدانی ہوں یا داتا گنج بخش ان سب نے صوفیانہ پیغامات اور تعلیمات کو پورے خطے خاص طور پردونوں ممالک تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم آج کے دور میں علمی و ادبی محافل کا انعقاد بھی کریں اور دونوں ممالک کے طلبہ کا آپس میں رابطہ بھی کروائیں تاکہ وہ آپس میں مل بیٹھ کر تحقیقات کر سکیں اسی طرح دونوں ممالک کے تعلقات کو بڑھایا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر رابعہ کیا نی کہا کہ پاکستان اور تاجکستان میں مشترکہ ثقافتی ورثہ موجود ہے۔ دونوں ممالک کے شعرا نے فارسی میں شعر کہےجس سے ثابت ہوتا ہے کہ ثقافت حدود سے ماوراء ہے۔
تاجکستان کی جانب سے ڈاکٹر مبارک شاہ شمس نے کانفرنس کے عنوان کے تحت مقالہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوفیا ئےِکرام دونوں جانب موجود ہیں ۔ چاہے وہ نقشبندی ہوں یا سہروردی، چشتی ہوں یا عالیہ تمام کا مقصد پیار اورحُسنِ سلوک کو عام کرنا تھا۔ اُنھوں نے کہا کہ بہا الدین زکریا ملتانی کا پیغام ان کے مریدوں نے سینہ بہ سینہ آگے منتقل کیا۔ آج اُن کے پیغامات اور شاعری موجود ہیں۔ اُنھوں نے مزید کہا کہ صوفی کا سب سے اہم پیغام تزکیۂ نفس کا ہوتا ہے جو تاجکستان میں بھی ہے اور پاکستان میں بھی ۔ اس لیے ہمیں آج بھی اسی تصوف پر عمل پیرا ہو کر خدمت، ہمت اور صحبت کے تین بنیادی عناصر کے ذریعے کام کرنا چاہیے۔ اسی میں کامیابی ہے۔
تاجکستان کی شاعرہ ثریا حسن سُلطان نے کہا کہ وہ اقبال کی شاعری سے بے حد متاثر ہیں اس کے علاوہ اُنھوں نے تاجک زبان میں اپنی شاعری سنائی۔تاجک کے معروف لکھاری صلاح الدین زادہ نے فیض احمد فیض اور میر زادہ پر اپنا مقالہ پیش کیا ۔ جس میں اُنھوں نے دونوں شاعروں کی شاعری میں موجود پیغام ِ امن، محبت اور وطن سے مٹی کی مثالیں پیش کیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ تاجک یونیورسٹیوں میں پاکستان کے شعرا خصوصا ًفیض اور اقبال پر کام ہورہا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ یہاں بھی ایسا ہو۔
پروفیسر ضمیرہ غفوری نے کہا کہ مجھے آج یہ بتاتے ہوئے بہت خوشی ہو رہی ہے کہ میں اس شخص کی بیٹی ہوں جس نے تاجکستان میں اقبال لاہوری پر سب سے پہلے کام کیا اور اپنا تحقیقی مقالہ 1958ء پیش کیا۔ اسی وجہ سے انھیں تاجکستان میں اقبال شناسی کے بانی کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ہمارے گھر کی لائبریری میں غالب ، اقبال اور شبلی کی کئی کتب موجود
ہیں ۔ میرے والد نے اقبال پر کئی کتب تحریر کیں اور ہم اقبال کو اقبال لاہوری کے طور پر جانتے ہیں اور آج بھی تاجکستان کے ادب میں اقبال لاہوری زندہ و جاوید ہے۔
تقریب کی نظامت کے فرائض حمیرا شہباز نے ادا کیے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos