اپوزیشن کی قومی کانفرنس،مفاہمت کے بجائے مزاحمت کی راہ اپنانے پر اتفاق

اسلام آباد میں تحریک تحفظ آئین پاکستان کے زیر اہتمام قومی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، وکلا، صحافیوں، دانش وروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی۔ کانفرنس میں شرکا نے موجودہ سیاسی، آئینی اور عدالتی صورتحال پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مفاہمت کے بجائے مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے پر اتفاق کیا۔

کانفرنس کے شرکا نے حالیہ آئینی ترامیم کو مسترد کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو غیر مؤثر بنانے، عدلیہ کی آزادی کو محدود کرنے اور آزادی اظہار پر پابندیوں کی مذمت کی۔ وکلا برادری نے عدالتی معاملات میں مداخلت پر تشویش ظاہر کی جبکہ صحافیوں نے پیکا ایکٹ کو آزادی صحافت کے لیے خطرہ قرار دیا۔

تحریک تحفظ آئین پاکستان کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کے لیے باہمی معافی اور مکالمہ ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا ہے تو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کی اجازت دی جائے اور تمام بڑی سیاسی قیادت کو بیٹھ کر بات کرنی چاہیے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ 8 فروری کے انتخابات کے نتائج کا احترام کیا جائے۔

سینئر سیاست دان جاوید ہاشمی نے کہا کہ آزادی اور حقوق قربانیوں سے حاصل ہوتے ہیں اور پیچھے ہٹنے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ انہوں نے سیاسی جدوجہد کو نعروں کے بجائے سنجیدہ مکالمے سے جوڑنے پر زور دیا۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ حالیہ فیصلے پورے نظام انصاف پر سوالیہ نشان ہیں اور یہ معاملہ کسی ایک جماعت تک محدود نہیں رہا۔ ان کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نے قوم کو اسٹریٹ موومنٹ کے لیے تیار رہنے کا پیغام دیا ہے کیونکہ موجودہ حالات میں یہی راستہ بچا ہے۔

اسد قیصر نے کہا کہ اب سڑکوں پر نکلنے کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں رہا اور مزاحمت ہی واحد آپشن ہے۔ جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ نے غیرجانبدارانہ انتخابات، آئین کے تحفظ اور پُرامن سیاسی جدوجہد پر زور دیا۔

وکیل ایمان مزاری نے کہا کہ عوامی مینڈیٹ کے خلاف کسی بھی اقدام پر خاموشی اختیار نہیں کی جا سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر پی ٹی آئی مزاحمت کا راستہ اپناتی ہے تو مختلف طبقے اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر نے کہا کہ پارٹی نے آئین کے تحفظ کے لیے جدوجہد شروع کی ہے کیونکہ عوامی مینڈیٹ کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات یا مزاحمت کا حتمی فیصلہ مشاورت سے کیا جائے گا۔

کانفرنس سے خطاب کرنے والے صحافیوں اور دیگر سیاسی رہنماؤں نے بھی آزادی صحافت، عدلیہ کی خودمختاری اور جمہوری اقدار کے تحفظ کے لیے مشترکہ جدوجہد پر زور دیا۔ شرکا نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ملک میں آئین اور جمہوریت کے تحفظ کے لیے ہر سطح پر آواز بلند کی جائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔