’’شمالی افریقہ میں‘‘۔پاکستان کا نیاجیوپولیٹیکل قدم جودفاعی سفارت کاری بھی ہے

مشرقی لیبیا میں برسراقتدار لیبین نیشنل آرمی (ایل این اے)کے پاکستان سے ساڑھے 4ارب ڈالر مالیت کے ہتھیار خریدنے کا معاہدہ عالمی سفارت کاری اوربین الاقوامی تعلقات میں نمایاں طورپر قابل ذکرخبرہے ۔

ایل این اے کے سرکاری میڈیا چینل نےرپورٹ کیا کہ پاکستان کے ساتھ دفاعی تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے گئے ہیں، جس میں اسلحہ کی فروخت، مشترکہ تربیت اور فوجی پیداوار شامل ہے۔ایل این اے کے نائب کمانڈر ان چیف جنرل صدام خلیفہ حفتر نے الحدث ٹی وی پر کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ اسٹریٹجک فوجی تعاون کے ایک نئے مرحلے کا آغاز کر رہے ہیں۔چیف آف آرمی سٹاف، چیف آف ڈیفنس فورسزفیلڈمارشل عاصم منیرنے اس موقع پر کہا کہ بھارت سے ہماری حالیہ جنگ نے دنیا کے سامنے ہماری اعلیٰ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔

معاہدہ دراصل ایک ملٹی ڈومین فورس ماڈرنائزیشن پیکج ہےجو بشمول فضائی، زمینی اور بحری صلاحیتوں، پاکستانی تربیت اور پائیداری کے فریم ورک پر طویل انحصارکرتے ہوئے لیبیا کی انتہائی شدید آپریشنل کمزوریوں کو دور کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔16 JF-17 تھنڈر ملٹی رول لڑاکا طیاروں کی شمولیت حکمت عملی کے لحاظ سے سب سے اہم ہے، کیونکہ یہ لیبیا کو ایک جدیدلڑاکا طیارہ فراہم کرے گا جو وسیع علاقے کی نگرانی، درست حملے اور فضائی حدود کے کنٹرول کے لیے موزوں ہے۔لیبیا کے لیے، جے ایف 17کی شمولیت پرانے مگ 21 اور میراج کے اسپیئر پارٹس کی کمی اور ایویانکس متروک ہونے کی وجہ سے غیر مستحکم فضائی صلاحیت کو ایک فیصلہ کن تبدیلی ثابت ہو گی۔لڑاکا بیڑے کی تکمیل میں 12 سپر مشاق بنیادی تربیتی طیارے پرائمری فلائٹ ٹریننگ کے لیے موزوں ہیں۔سپر مشاق میں شیشے کا کاک پٹ، ایجیکشن سیٹیں اور ہلکے ہتھیار انہیںپائلٹ ٹریننگ سسٹم کی تعمیر نو کا ایک عملی حل بناتا ہے۔اسی طرح زمینی جنگ کے محاذ پر، 44 حیدر ٹینکوں کی مبینہ شمولیت لیبیا کو اپنے وسیع خطوں میں قابل اعتماد بکتر بند مشقوں کی صلاحیت بحال کرنے میں معاونت کرے گی ۔اسی طرح،ایڈوانسڈ انفنٹری مارٹر سسٹمز درست مارکے حامل گائیڈڈ گولہ بارود کو شامل کرتے ہوئے، انسداد بغاوت اور جوابی، درست بالواسطہ فائر کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔پیکیج کی بحری جہت، مبینہ طور پر ایک کثیرالمقاصد بحری جہاز پر مرکوز ہے جو ممکنہ طور پر پاکستان کے ملجم کلاس کارویٹ یا آف شور گشتی جہاز کے ڈیزائن سے اخذ کیا گیا ہے، لیبیا کو بحیرہ روم کے ساحلی پٹی پر میری ٹائم سیکیورٹی پردرکار اہلیت عطاکرے گا۔بحری جہاز، گشت، رکاوٹ بننے اور محدود سطح پر جنگ کی صلاحیت سے لیس ہے، لیبیا کی اسمگلنگ نیٹ ورکس، غیر قانونی نقل مکانی اور دشمن غیر ریاستی عناصر کی سمندری دراندازی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کو مضبوط کرے گا۔اہم بات یہ ہے کہ یہ معاہدہ ہارڈ ویئر سے آگے بڑھ کر جامع تربیتی پروگراموں پربھی مشتمل ہے۔

لیبیا 2011 سے اقوامِ متحدہ کی اسلحہ پابندی کے تحت ہے، تاہم دسمبر 2024 میں اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے اس پابندی کو غیر مؤثر قرار دیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ لیبیا پر اسلحہ پابندی ’’غیر مؤثر‘‘ ثابت ہوئی ہے اور بعض غیر ملکی ریاستیں پابندی کے باوجود مشرقی اور مغربی لیبیا کی افواج کو فوجی تربیت اور مدد فراہم کرنے میں کھل کر شامل ہو رہی ہیں۔
پاکستانی حکام کے مطابق اس معاہدے سے پابندی کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔ ایک ذریعےنے کہا کہ پاکستان لیبیا کے ساتھ معاہدہ کرنے والا واحد ملک نہیں۔ دوسرے ذریعے کے مطابق حفتر پر کوئی پابندیاں عائد نہیں، تیسرے کے مطابق بن غازی حکام کے ، خاص طور پر ایندھن کی برآمدات میں اضافے کے باعث ،مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر ہو رہے ہیں۔

عرب میڈیا نے کہاہے کہ لیبیا کے ساتھ یہ معاہدہ شمالی افریقہ میں پاکستان کی موجودگی کو وسعت دے گا، جہاں علاقائی اور عالمی طاقتیں لیبیا کے منقسم سکیورٹی نظام اور تیل پرمبنی معیشت پر اثر و رسوخ کے لیے مقابلہ کر رہی ہیں۔
اس معاہدے کو پاکستان کی تاریخ میں ہتھیاروں کی فروخت کے سب سے بڑے معاہدوں میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔ قبل ازیں، پاکستان جے ایف 17طیاروں کی آذربائیجان کو فروخت کا معاہدہ بھی 4 اعشاریہ 6 ارب ڈالر میں کرچکاہے۔

لیبیا میں 2011 میں ایک بغاوت کے ذریعے معمر قذافی کی حکومت کا خاتمہ ہونے کے بعد سے یہ ملک حریف دھڑوں میں تقسیم ہے۔ ان دھڑوں کو بیرونی طاقتوں سے وسیع پیمانے پر فوجی حمایت حاصل ہے۔ ترکیہ اور قطر نے ،ڈرونز، بکتر بند گاڑیوں، فضائی دفاعی نظام، فوجی مشیروں اور اتحادی جنگجوؤں کی فراہمی کے ذریعے،طرابلس میں قائم حکومتوں کی کھلے عام حمایت کی ہے، بشمول سابق حکومت نیشنل ایکارڈ (GNA) اور اس کی جانشین حکومت نیشنل یونٹی (GNU)۔طرابلس حکام کو امریکہ، برطانیہ اور اٹلی سے سفارتی شناخت اور مختلف درجوں کی سیاسی حمایت بھی حاصل رہی ہے۔ دوسری طرف مشرقی حصےپربرسراقتدار ایوان نمائندگان اور ایل این اے کو متحدہ عرب امارات، مصر اور روس نے لڑاکا طیارے، ڈرونز، آرٹلری سسٹم، بکتر بند گاڑیوں، انٹیلی جنس شیئرنگ اور نجی فوجی کنٹریکٹرزمہیاکیے۔فرانس کے بارے میں بھی بتایاگیا کہ وہ ایل این اے کی مدد کرتارہا۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی رپورٹوں میں سعودی عرب، اردن اور چاڈ کا بھی حوالہ دیا گیا ہے کہ وہ مشرقی لیبیا میں فورسز کو مختلف قسم کی مدد فراہم کر رہے ہیں۔

ذرائع نے اس معاہدے کو، پیمانے اور مالیاتی اثرات دونوںکے لحاظ سے تاریخی قرار دیا ہے، جس سے ممکنہ طور پر افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں پاکستانی دفاعی برآمدات کے لیے نئی منڈیاں کھلیں گی۔شمالی افریقی خطے میںہتھیاروں کی تجارت کے لیے پاکستان کا داخلہ روایتی اتحادوں سے آگے جا کر اعلیٰ جیو پولیٹیکل اقدامات میں شامل ہونےکا اشارہ ہے۔اس پیش رفت کو برآمدات پرمشتمل اسٹریٹجک نکتہ نظر اور دفاعی سفارت کاری کا مظہر قراردیا گیاہے۔

ایل این اے کو اسلحے کی فراہمی لیبیا میں طاقت کے توازن کو براہ راست متاثر اور طرابلس میں موجودحکومت کے خلاف حفتر کے دھڑے کو مضبوط کرے گی۔تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ معاہدہ JF-17 کے ذریعے لیبیا میں چین کے بالواسطہ اثر و رسوخ کو بھی مضبوط کرے گا، جس سے شمالی افریقہ میں بیجنگ کے اسٹریٹجک اثرات کو وسعت ملے گی۔واضح رہےکہ اسلحے کے مجوزہ معاہدے میں تھنڈرطیاروں کی فراہمی بھی شامل ہے۔

گذشتہ دنوں پاک فوج کے سربراہ اور چیف آف ڈیفنس فورسزفیلڈمارشل سیدعاصم منیرنے لیبیا،بن غاز ی کا دورہ کیا تھا۔ اس دوران انہوں نے حفترکے بیٹے صدام سے ملاقات کی۔ فیلڈمارشل نے لیبیا کی نیشنل آرمی کے افسران سے اپنے خطاب میں عالمی شہرت یافتہ حریت پسند عمر مختار کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ لیبیا شیروں کی سرزمین ہے۔ان کا کہناتھاکہ براہ کرم اپنی مسلح افواج کو ہر ممکن حد تک مضبوط بنائیں کیونکہ مسلح افواج ممالک کے وجود کی ضمانت دیتی ہیں۔
عمر مختار کی لیبیا پر اطالوی قبضے کے خلاف 1920-1930 کی دہائی میں جدوجہد کو 1981 میں ہالی ووڈ کلاسک فلم’’ لائن آف دی ڈیزرٹ ‘‘میںاجاگرکیا گیا تھا۔

فیلڈمارشل خلیفہ حفتر نے متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، مصر اور روس کی حمایت سے 2019 میں طرابلس کو فتح کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے طرابلس تک بھی اپنے تعلقات کو بڑھایا ہے، ترکیہ نے خلیفہ حفترسے ان کےبیٹے اور ممکنہ جانشین صدام کے ذریعےمراسم قائم کیے ۔ اسلام آباد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات دونوں کے قریب ہے۔ مؤخر الذکر ہفتر کی سب سےنزدیکی خلیجی ریاست ہے، لیکن سعودی عرب نے بھی اس کے ذریعے ایل این اے کوحمایت اور لابنگ کی۔ ریاض میں روسی سفارت خانہ بھی ایک بار حفتر کے ماسکو سے تعلقات استوارکرنے پرکام کرچکاہے۔

پاکستان اور لیبیا کے تعلقات 1951 سے چلے آرہے ہیں،انہیں کرنل قذافی کے دور میں تقویت ملی جب لیبیا نے پاکستان کو اقتصادی امداد، توانائی کی فراہمی اور روزگار کے مواقع فراہم کیے تھے۔
حالیہ تعلقات کے حوالے سے ،جولائی 2025 میں صدام خلیفہ حفتر کا دورہ پاکستان خاص طور پر نتیجہ خیز ثابت ہوا، اس نے لیبیا کے دفاعی منصوبہ سازوں کو پاکستان کے ترقی کرتے عسکری پلیٹ فارمز، انسداد دہشت گردی حکمت عملی اور برآمدات پر مبنی پیداواری صلاحیت سے روشناس کرایا۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔