فائل فوٹو
فائل فوٹو

مسافروں کے اغوا پر کچے میں آپریشن کتنا کامیاب؟

نمائندہ امت :

بس مسافروں کے اغوا پر کچے کے علاقے میں شروع کیا جانے والا آپریشن جاری ہے۔ تاہم یہ اہم سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ آپریشن کتنا کامیاب ہے؟ تازہ ترین معلومات کے مطابق سندھ پولیس اور رینجرز کی جانب سے ایک ہفتہ قبل شروع کیا جانے والا آپریشن مکمل کر کے معاملہ پنجاب حکومت کے سپرد کردیا گیا ہے۔ اس آپریشن کے دوران تمام انیس مغوی بس مسافروں کو بازیاب کرالیا گیا۔ ان میں سے ایک مغوی کی موت ہارٹ اٹیک سے ہوئی ہے۔ مسافروں کو بازیاب کرانے کے ساتھ پولیس کے ساتھ آپریشن میں نو سے سولہ ڈاکوئوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ اور چھوٹو گینگ کے زیرتسلط جزیرہ بھی کلیئر کرانے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔ تاہم ضلع گھوٹکی، کشمور اور ضلع شکار پور سمیت سندھ میں کچے کے دیگر علاقوں میں ڈاکوئوں کا راج قائم ہے۔

سندھ میں مختلف قبائل کے درمیان خونریز تصادم میں سیکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ تاہم سب سے زیادہ افراد شکار پور کے مہر جتوئی قبائل کے درمیان تصادم کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ ایک بار پھر ان قبائل کے درمیان تصفیہ کرانے کے لیے طلب کردہ جرگے کا انعقاد نہ ہونے پر سابق ایم این اے کی جانب سے وزیر اعلیٰ سندھ کو خط ارسال کرنے کے باوجود اب تک اس کا خاطرخواہ نتیجہ سامنے نہیں آسکا۔

پنجاب اور سندھ کے سرحدی علاقوں کے کچے کے علاقوں میں طویل عرصے سے ڈاکو راج قائم ہے۔ جس کے نتیجے میں پندرہ دسمبر کو ڈاکوئوں نے صادق آباد سے کوئٹہ جانے والی مسافر کوچ کو کشمور انٹر چینج کے مقام پر یرغمال بنا کر ان میں سے انیس مسافروں کو اغوا کرلیا اور اپنے ساتھ کچے کے علاقے میں لے گئے۔ جس کے بعد سندھ پولیس اور رینجرز نے فوری آپریشن شروع کر کے تمام مغویوں کو بحفاظت ڈاکوئوں کے چنگل سے آزاد کرا لیا تھا۔ ان میں سے ایک مسافر کی موت واقع ہوئی، لیکن اس کا سبب بھی ہارٹ اٹیک تھا۔ اغوا کی یہ واردات صوبہ سندھ کی حدود میں ہوئی تھی۔ جس کا مقدمہ ضلع گھوٹکی کے تھانہ کھمبڑا میں درج ہوا۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ مسافروں کے بازیاب ہونے کے بعد زیادہ تر ڈاکوئوں نے ضلع راجن پور اور ضلع رحیم یار خان کے علاقے میں سب سے زیادہ محفوظ آماجگاہ تصور کیے جانے والے دریائے سندھ کے اندر چھوٹو گینگ کے زیر تسلط رہنے والے جزیرے میں پناہ لی۔ جہاں پر پولیس اور رینجرز نے ڈرون ٹیکنالوجی کے ذریعے ڈاکوئوں پر شدید حملے کر کے ان کا صفایا کر دیا ہے۔ جہاں سے بڑے پیمانے پر ڈاکو ماسوائے چند خواتین کے، اپنے گھر خالی کر کے دیگر علاقوں میں مفرور ہو گئے ہیں۔

ایس ایس پی گھوٹکی انور کھپران کا دعویٰ ہے کہ ایک ہفتے کے آپریشن کے دوران سولہ ڈاکو ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں سے نو ڈاکوئوں کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔ دو روز قبل بکھرانی گینگ کے خطرناک ڈاکو چھلو بکھرانی کو بھی مارنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ چھلو بکھرانی ڈاکو کئی بے گناہ افراد کے قتل و اغوا کی وارداتوں میں ملوث رہا ہے۔ حکومت نے اس کے سر کی قیمت پچاس لاکھ روپے مقرر کی تھی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ چھوٹو گینگ کے زیرتسلط جزیرے میں جب ڈاکوئوں کا گھیرائو تنگ کیا گیا تو دیگر ڈاکو کشتی میں سوار ہو کر ان کی مدد کے لیے جارہے تھے۔ پولیس اور رینجرز نے ڈرون ٹیکنالوجی کے ذریعے اس کشتی کو نشانہ بنایا۔ جس میں چار بدنام زمانہ ڈاکو شاہ مراد عمرانی، ظفری، جھبیل، گمنی گوپانگ، بہادر عمرانی اور ایک اور ڈاکو ہلاک ہو گیا۔ جن کی لاشیں دریا میں بہہ گئی ہیں۔ اور دو مغویوں کو بھی آزاد کرایا گیا ہے اور ریاض نامی ایک شخص کی لاش ملی ہے، جس کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ مغوی تھا۔ اور اس آپریشن کے دوران ستائیس ڈاکوئوں کے زخمی ہونے کا دعویٰ بھی کیا جارہا ہے۔

ایس ایس پی گھوٹکی کے مطابق وہاں سے آپریشن کے دوران اتنے بھاری اور خطرناک ہتھیار ملے ہیں، جو وزیرستان سے بھی نہیں ملے۔ گھوٹکی پولیس کے مطابق گزشتہ روز (ساتویں دن) آپریشن مکمل کر کے تمام معاملات حکومت پنجاب کے سپرد کیے گئے ہیں۔

اس آپریشن کے دوران پولیس کو مذکورہ کچے کے علاقے میں پیپلز پارٹی کے ایم پی اے ممتاز چانگ کا ملازم شاہد عباسی، دو ڈسپنسر عمر طاہر اور طارق رشید بھی ملے، جو اپنے آپ کو مغوی ثابت کر رہے تھے۔ تاہم پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ مغوی نہیں بلکہ ان پر شک ہے کہ وہ ڈاکوئوں کے سہولت کار ہیں، جن سے تفتیش کی جارہی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ ایم پی اے کے پیٹرول پمپ پر واقع عائشہ میڈیکل سینٹر کے نام سے ایک کلینک ہے۔ جہاں کچے کے زخمی ہونے والے ڈاکوئوں کا علاج معالجہ کیے جانے کا شبہ ہے۔ رکن پنجاب اسمبلی ممتاز چانگ متعدد بار اسمبلی کے فلور پر یہ بات کرتے رہے ہیں کہ انہیں ڈاکوئوں سے خطرہ ہے۔ ایسے میں ان کے ایک ملازم کا ڈاکوئوں کے سہولت کار ہونے پر پیپلزپارٹی کے حلقوں میں بھی کھلبلی مچی ہوئی ہے۔

مذکورہ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں صادق آباد کے بعض ڈاکوئوں کو بھی تفتیش کے لیے زیرحراست لیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر سب سے بڑا سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ سندھ پولیس اگر پنجاب کے علاقے میں ڈاکوئوں کے مختلف گینگ کا صفایا کر سکتی ہے تو پھر سندھ کے ضلع گھوٹکی، کشمور، شکارپور اور دیگر اضلاع کے کچے کے علاقوں میں ڈاکوئوں کے خلاف موثر کارروائی کیوں نہیں ہو رہی ہے۔ جس کے لیے پولیس کا اکثر یہ موقف سامنے آتا رہا ہے کہ سندھ کے کچے کے علاقے میں امن و امان کی صورتحال خراب ہونے کی وجہ قبائلی تصادم ہیں۔

جبکہ دیگر ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ سندھ کے کچے کے علاقے کے ڈاکوئوں کو متعلقہ قبائل کے بااثر افراد کی سپورٹ حاصل ہے۔ جو سیاسی اثر و رسوخ بھی رکھتے ہیں۔ اور خصوصاً اس وقت سندھ کے کچے کے علاقے میں پولیس کی کارروائیاں ماند پڑ جانے کی ایک وجہ معاشی بھی ہے۔ کیونکہ اس وقت نہ صرف پنجاب، بلکہ سندھ کے کچے کے علاقے میں بڑے پیمانے پر گنے کی فصل کی کٹائی ہو رہی ہے اور ان میں سے زیادہ تر گنا سندھ کے ایک بااثر صوبائی وزیر کی شوگر مل پر آرہا ہے۔ مذکورہ شوگر مل نے کرشنگ کا آغاز رواں سال ہی کیا ہے۔ آپریشن کی صورت میں گنے کی ترسیل بھی متاثر ہو سکتی ہے۔

سندھ میں مختلف قبائل کے درمیان تصادم میں بھاری جانی نقصان ہو چکا ہے۔ لیکن ان میں سے سب سے زیادہ افراد ضلع شکارپور کے مہر جتوئی قبائل کے درمیان تصادم کی بھینٹ چڑھے ہیں۔ ان قبائل کے درمیان گزشتہ چند دہائیوں سے قبائلی تصادم چل رہا ہے۔ گزشتہ سال حکومت اور ریاستی اداروں نے امن و امان کی بحالی کے لیے ان قبائل کے درمیان تصفیہ کرانے پر زور دیا تو تیرہ نومبر دو ہزار چوبیس کو پیپلزپارٹی کے موجودہ ایم پی اے علی گوہر خان مہر کی سربراہی میں سرکٹ ہائوس سکھر میں ایک جرگہ منعقد ہوا۔ جس میں دونوں قبائل شیر و شکر ہو گئے۔ لیکن پانچ ماہ بعد ان کے درمیان نفرت کی چنگاریاں پھر بھڑک اٹھیں تو ایک بار پھر ان قبائل کے درمیان تصفیہ کرانے کے لیے بیس نومبر دو ہزار پچیس کو جرگہ منعقد کرنے کی تاریخ طے کی گئی۔

اِس جرگے میں علی گوہر خان مہر، سابق وفاقی وزیر غلام مصطفی خان جتوئی، سابق وزیر غوث بخش خان مہر، ان کے فرزند موجودہ ایم پی اے شہریار خان مہر، سابق ایم این اے ابراہیم خان جتوئی اور سابق ایم پی اے عابد جتوئی سمیت دیگر اہم شخصیات کو بیٹھنا تھا۔ جب جرگے کی تاریخ طے کی گئی تو اس وقت جرگہ ہونے تک جنگ بندی کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔ لیکن جرگہ منعقد ہونے سے پہلے ہی سیز فائر کی خلاف ورزی کی گئی۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران چھ افراد قتل ہو چکے ہیں۔

جبکہ ایک سال قبل سرکٹ ہائوس سکھر میں ہونے والے جرگے کے بعد اب تک دونوں قبائل کے اننچاس افراد قبائلی تصادم کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ سیز فائر کی خلاف ورزی کے باعث اس جرگے کا انعقاد نہیں ہو سکا۔ جس کے بعد سابق ایم این اے ابراہیم خان جتوئی نے وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، صوبائی وزیر داخلہ ضیا رنجار اور آئی جی سندھ کو تحریری طور پر ایک لیٹر ارسال کیا تھا۔ جس میں کہا گیا تھا کہ مذکورہ قبائل کے درمیان تصادم کے باعث علاقے میں خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔ امن و امان کی بحالی کے لیے اور مذکورہ قبائل کے درمیان تصفیہ کرانے میں آپ اپنا کردار ادا کریں۔ لیکن تاحال اس جرگے کا انعقاد نہیں ہو سکا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔