فائل فوٹو
فائل فوٹو

مشتبہ مسافروں پر نظر رکھنے کیلیے مصنوعی ذہانت کا استعمال

عمران خان :

وزٹ ویزوں، زیارتوں اور عمرے کے نام پر سعودی عرب، عراق، ملائیشیا، آذربائیجان، متحدہ عرب امارات، نیپال اور یورپی ممالک جانے والے پیشہ ور گداگروں اور انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایجنٹوں کے خلاف کارروائیوں کو باضابطہ طور پر قومی معاملہ قرار دے کر نیشنل ترجیحی پالیسی کا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے تحت وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ساتھ ساتھ حساس اور جدید ڈیجیٹل اداروں کو بھی مشترکہ آپریشن میں شامل کر لیا گیا ہے۔ جن میں نیشنل سرٹ پاکستان (CERT) جیسے اہم ادارے بھی شامل ہیں۔

’’امت‘‘ کو ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز کے ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق حکومتی حکمت عملی کے تحت ایک طرف مشکوک مسافروں کو ایئرپورٹس پر آف لوڈ کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب سوشل میڈیا اور آن لائن پلیٹ فارمز پر نوجوانوں کو بیرونِ ملک جعلی ملازمتوں کا جھانسا دینے والے اشتہارات اور نیٹ ورکس کے خلاف ڈیجیٹل سطح پر کارروائیاں شروع کر دی گئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق رواں ہفتے اس ضمن میں کئی اہم اقدامات کیے گئے۔ پارلیمانی کمیٹی کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ متعدد افراد عمرے کے نام پر بذریعہ سعودی عرب یورپ جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ جنہیں ٹھوس شواہد کی بنیاد پر آف لوڈ کیا گیا۔ ان افراد کے پاس یورپ جانے سے متعلق دستاویزی شواہد موجود تھے، جس پر فوری کارروائی عمل میں لائی گئی۔

ایف آئی اے کے مطابق رواں سال 24 ہزار پاکستانی کمبوڈیا گئے۔ جن میں سے 12 ہزار تاحال واپس نہیں آئے۔ جبکہ میانمار برما سیاحتی ویزے پر جانے والے چار ہزار افراد میں سے ڈھائی ہزار واپس نہیں لوٹے۔ حکام نے بتایا کہ تمام بڑے ایئرپورٹس کو آئی ڈی ایم ایس ٹو اور نادرا کے آن لائن ڈیٹا سے منسلک کر دیا گیا ہے۔

امیگریشن کائونٹرز پر کیمرے نصب ہیں اور کنٹرول ہیڈ کوارٹر سے مسلسل نگرانی کی جا رہی ہے۔ امیگریشن نظام میں مصنوعی ذہانت (AI) کے ذریعے مشتبہ کیسز کی پیشگی نشاندہی کی جا رہی ہے۔ تاکہ انسانی مداخلت کم اور سسٹم بیسڈ کلیئرنس کو ترجیح دی جا سکے۔ ڈی جی ایف آئی اے رفعت مختار کے مطابق مجموعی طور پر 66 ہزار مسافروں کو آف لوڈ کیا گیا۔ جن کی بڑی تعداد لاہور اور کراچی ایئرپورٹس سے تھی۔ ان میں اکثریت وزٹ، عمرہ اور ورک ویزا کی کیٹیگری سے تعلق رکھتی تھی۔

ڈی جی ایف آئی اے نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستانی پاسپورٹ کی عالمی درجہ بندی 118 سے بہتر ہو کر 92 پر آگئی ہے۔ ان کے مطابق گزشتہ برسوں میں پاکستان غیر قانونی طور پر یورپ جانے والے افراد کے حوالے سے سرفہرست پانچ ممالک میں شامل تھا۔ تاہم نئی پالیسیوں کے باعث اب پاکستان اس فہرست سے نکل چکا ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق گزشتہ سال آٹھ ہزار پاکستانی غیر قانونی طور پر یورپ گئے۔ رواں سال یہ تعداد کم ہو کر چار ہزار تک محدود رہنے کا امکان ہے۔

اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا کہ دبئی اور جرمنی نے پاکستانی سرکاری پاسپورٹس پر ویزہ فری سہولت فراہم کی ہے۔ جبکہ ایک نئی موبائل ایپلی کیشن جنوری کے وسط میں لانچ کی جا رہی ہے۔ جس کے تحت بیرونِ ملک جانے والے مسافر روانگی سے 24 گھنٹے قبل امیگریشن کلیئرنس حاصل کر سکیں گے۔ اسی اجلاس میں زمبابوے میں تعینات پاکستانی سفیر نے انکشاف کیا کہ ایتھوپیا اور زیمبیا کے راستے پاکستانی شہری غیر قانونی طور پر یورپ جا رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق 2024ء سے یہ معاملہ وزیراعظم ہائوس، وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کیلئے سنجیدہ سفارتی مسئلہ بن چکا تھا۔ گزشتہ دو برس میں متعدد ممالک نے پاکستانی حکام سے رابطہ کر کے پیشہ ور بھکاریوں اور غیر قانونی تارکینِ وطن کے بڑھتے ہوئے رجحان پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ کیونکہ یہ افراد ان ممالک کی سیاحتی صنعتوں اور سیکورٹی کیلئے مسائل پیدا کر رہے تھے اور پاکستان کے عالمی تشخص کو نقصان پہنچ رہا تھا۔ حال ہی میں پاکستان میں تعینات سعودی سفیر نواف بن سعید احمد المالکی نے بھی اس معاملے پر شدید دبائو ڈالا، جس کا اندازہ ان کی اگست میں وزیراعظم ہائوس، وزیر داخلہ اور نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے ہونے والی مسلسل ملاقاتوں سے لگایا جا سکتا ہے۔

گزشتہ برس 10 اگست کو وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے سعودی سفارتخانے جاکر سعودی سفیر کو یقین دہانی کرائی کہ سعودی عرب جانے والے پیشہ ور بھکاریوں اور ان کے سہولت کار ٹریول ایجنٹس کے خلاف ملک بھر میں بھرپور کریک ڈائون کیا جائے گا۔ وزیر داخلہ کے مطابق یہ مافیا پاکستان کے امیج کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔

تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے ہیڈکوارٹر کی سطح پر اس سنگین مسئلے سے نمٹنے میں طویل عرصے تک غفلت برتی گئی۔ آج تک عالمی سطح پر پکڑے جانے والے یا ڈی پورٹ ہونے والے پاکستانی بھکاریوں کا جامع ڈیٹا مرتب نہیں کیا جا سکا اور نہ ہی ان سے تفتیش کر کے علاقائی نیٹ ورکس اور ایجنٹوں کی مکمل نشاندہی کی گئی۔ زیادہ تر پیشہ ور بھکاریوں کا تعلق جنوبی پنجاب اور سندھ کے علاقوں رحیم یار خان، ملتان، صادق آباد، راجن پور، چولستان، شہداد کوٹ اور جیکب آباد سے بتایا جاتا ہے۔

ایف آئی اے ذرائع کے مطابق اسی گداگر مافیا کے باعث عراق نے پاکستانی شہریوں سے ایئرپورٹس اور سرحدی چوکیوں پر واپسی کی تحریری ضمانتیں لینا شروع کر دی ہیں۔ جبکہ متحدہ عرب امارات نے بھی پاکستان کے بعض علاقوں کے پاسپورٹ ہولڈرز کو ویزے دینے میں سختی کر دی ہے۔ ایران سمیت دیگر ممالک میں بھی پاکستانی شہریوں کیلئے امیگریشن پالیسیاں غیر معمولی حد تک سخت ہو چکی ہیں۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو مزید ممالک بھی ایسی پابندیاں عائد کر سکتے ہیں۔

ذرائع کے مطابق حالیہ ہفتے میں انسانی اسمگلنگ اور جعلی ایجنٹوں کی سرگرمیوں کو باضابطہ طور پر قومی مسئلہ قرار دینے کے بعد حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے جعلی ملازمتوں کا جھانسہ دینے والوں کے خلاف کارروائیاں اب مشترکہ، مربوط اور ٹیکنالوجی بیسڈ ہوں گی۔ اس مقصد کیلئے وزارت داخلہ، ایف آئی اے، نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی، پی ٹی اے، نیشنل سرٹ، پیمرا، امیگریشن و اوورسیز ایمپلائمنٹ ادارے اور پولیس سمیت تمام متعلقہ اداروں کے درمیان مشترکہ آپریشنل میکنزم پر اتفاق کر لیا گیا ہے۔

ایف آئی اے کے ترجمان کے مطابق انسانی اسمگلنگ کو قومی مسئلہ قرار دینا ایک فیصلہ کن موڑ ہے۔ جس کے تحت جعلی آن لائن اشتہارات، سوشل میڈیا اکائونٹس اور مافیا نیٹ ورکس کے خلاف فوری کارروائی کرکے ذمہ دار عناصر کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ تاکہ نوجوانوں کو غیر قانونی ہجرت اور مالی و جانی نقصان سے محفوظ بنایا جا سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔