آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں چار روزہ اٹھارہویں عالمی اردو کانفرنس 2025،جشن پاکستان کاآغاز کردیا گیا، افتتاحی تقریب میں مہمان خصوصی گورنر سند ھ کامران خان ٹیسوری نے شرکت کی۔اس موقع پر نوجوان طلباسمیت عوام کی بڑی تعداد ہال میں موجود تھی۔ قائداعظم محمد علی جناح کی سالگرہ اور کرسمس کا کیک بھی کاٹا گیا۔نظامت کے فرائض ہما میر نے انجام دیے۔
فتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے کہاکہ زندہ معاشرے میں ڈاکٹر، انجینئر کے ساتھ ادیب اور موسیقار کی بھی ضرورت ہے ، اردو کانفرنس میں آنے والی نسل کا ایک راستہ بنایا ہے ، ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم اپنی زبان کے لیے کیا کچھ کر سکتے ہیں ۔
معروف ادیب و نقاد ناصر عباس نیئرنے کلیدی خطبے میں کہاکہ ادب صرف نئی ئیتیں، نئے اسالیب، نئے موضوعات ، نئی زبان ہی تخلیق نہیں کرتا، نئی جگہیں بھی تخلیق کرتا ہے، ادب نیا زمانہ تخلیق نہ کرسکے تو پرانے زمانے کی خستگی و فرسودگی کا احساس دلاتا ہے، ایسے میں ادب اور فنون آدمی ہی مدد کو بڑھتے ہیں، آگ دو طرح کی ہوتی ہے۔ ادب اور فنون بلاشبہ اپنی ایک مقامیت رکھتے ہیں اور مقامی شناخت بھی مگر ان کی گفتگو تمام عالم سے بھی ہوا کرتی ہے۔ادب درخت بھی ہے اور پرندہ بھی۔ہمارے ادب کے لیے عالمی مکالماتی اسپیس کی ضرورت ہے۔
صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے خطبہ استقبالیہ میں کہاکہ اردو کانفرنس ایک کہکشاں ہے، یہاں پاکستانی ادیب، شاعر ، فنکار اور اداکار سب جمع ہیں،20، 25برس پہلے شہر میں کوئی ایسا ادارہ نہیں تھا ۔ ہندوستان سے ادب ،موسیقی اور فنون کے سارے بڑے لوگ یہاں آئے تھے لیکن بدقسمتی سے کوئی ادارہ نہیں تھا جو ادب اور ثقافت کے لیے کام کرے، میرے بزرگ جو اس دنیا سے گزرگئے میں سمجھتا ہوں وہ جنتی لوگ تھے، اس میں مشتاق احمد یوسفی، فاطمہ ثریا بجیا، جمیل الدین عالی، جمیل جالبی، اسلم فرخی، فرمان فتح پوری صاحب سمیت اس شہر اور ملک کے شامل تھے، ہندوستان کا ہر بڑا ادیب اس کانفرنس میں شریک ہوا ، ڈاکٹر ضیاالحسن اور ان کی بیگم حمیدہ شاہین کی ذمہ داری ہوتی تھی کہ واہگہ بارڈر سے شمیم حنفی، گوپی چند نارنگ، شمس الرحمن فاروقی، خلیق انجم، شاہد ماحولی ، شہزاد احمد ، افضال قاضی اور دیگر جتنے بھی اکابرین آتے تھے پہلے ان کو گھر لے جاتے پھر یہاں لاتے۔ انتظار حسین ، عبداللہ حسین ، حمید اختر، ناصر کاظمی،سلیم اخترکو ساتھ لاتے۔ یہ سب ہمارے معاشرے کا روشن چراغ ہیں، جمیل الدین عالی ، انتظار حسین کے سو برس پر بھی ہم سیشن کررہے ہیں، 18ویں عالمی اردو کانفرنس کو ہم نے جشن پاکستان کا نام دیا ہے، ہم آرٹ اور کلچر کا ادارہ ہیں، ہم ان سارے لوگوں کو منا رہے ہیں جو سب اپنے حصے کا کام کرکے چلے گئے، اس میں مصور، موسیقار، گلوکار، فلم کے ایکٹر ڈائریکٹر بھی شامل ہیں، سلیم الزماں صدیقی سے لے کر صادقین تک ، ظہور الاخلاق سے لے کر شاکر علی تک، انور جلال شمزہ سے لے کر Callen Davidتک جو لوگ اس ملک میں آئے یا یہاں کے باشندے تھے انہوں نے اس فنون کو آگے بڑھایا، یہ کانفرنس ان سب کو ٹربیوٹ ہے، پیرزادہ قاسم رضا صدیقی ، افتخار عارف ، پروفیسر سحر انصاری، فاطمہ حسن سمیت کئی لوگ شروع دن سے ہمارے ساتھ ہیں۔
احمدشاہ نے عالمی اردو کانفرنس کا تاریخی پس منظر بتاتے ہوئے کہا کہ جب ہم نے نفرنس شروع کی تھی تو ایک روپیہ نہیں تھا، پھر یہ سب سے زیادہ بڑی کانفرنس بنی جو سات دن تک چلی ۔ دنیا بھر سے لوگ آئے، کراچی کے رہنے والوں نے اپنے دروازے کھولے، اپنے گھروں میں رکھا، کچھ کراچی یونیورسٹی کے ہوسٹل میں ٹھہرے، کچھ کی کراچی کے لوگوں نے ٹکٹیں خریدیں۔ پورے شہر نے مل کر دنیا کی اتنی بڑی کانفرنس کی بنیاد ڈالی، یہاں نہ کوئی عمارت تھی اور فنڈنگ ، لیکن سب میں ایک جذبہ تھا، نبی بخش بلوچ، شمیر الحیدری، ڈاکٹر سراج الحق میمن، آغا صاحب جتنے زندہ لوگ تھے وہ سب یہاں آئے، سوبھوگیان چندانی اور حاجرہ مسرور ہماری پہلی کانفرنس میں ہمارے ساتھ تھے، ہم نے اس وقت اردو کانفرنس کا بیڑہ اٹھایا جب شہر میں نفرت کی آگ لگی ہوئی تھی سینکڑوں لوگ قتل کیے جارہے تھے تب ہم نے سوچا کہ کوئی تو ہو جو محبت کی بات کرے، تلوار میں، بندوق میں بہت طاقت ہے آپ کو گولی مار دیتی ہے، لیکن جو لٹریچر ،نغمے، فنون ، ستار کے سر کی طاقت ہے اس کا اثر دیر سے ضرور ہوتا ہے مگر تادیر قائم رہتا ہے ہمارے پاس یہی ہتھیار تھے، میرے پاس شکریہ کے علاوہ کوئی الفاظ نہیں ہیں ، میں اس شہر اس ملک کا شکریہ اور قائداعظم محمد علی جناح کا شکریہ ادا کرتا ہوں جس نے ہمیں وہ ملک دیا جہاں ہم کھل کر سانس لیتے ہیں، اپنی بات کہتے ہیں ، رقص کرتے ہیں، اپنا نغمہ گاتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ آج قائد اعظم محمد علی جناح کا یوم پیدائش کا دن ہے، تین چیزوں پر متحد ہوجاو ہر چیز پر لڑو، پاکستان ، پاکستان کا جھنڈااور پاکستان کا بانی محمد علی جناح۔آج کرسمس کا بھی دن ہے، ہم مسیحی بھائیوں کو کرسمس کی مبارکباد بھی دیتے ہیں، آج تجد ید عہد وفا کا دن ہے، ہم جب جشن منا رہے ہیں تو قائداعظم محمد علی جناح، لیاقت علی خان ، علامہ اقبال سمیت جن لوگوں نے قربانیاں دیں ہم انہیں کیسے بھول سکتے ہیں، میڈیا کے ذریعے میں لوگوں کو کہنا چاہتا ہوں کہ یہ کانفرنس آپ کی ثقافت اور ادب کا جشن ہے اس میں ضرور شریک ہوں، یہ کانفرنس اب دولت مشترکہ ہے، یہ ادب سے محبت کرنے والوں کی کانفرنس ہے اس میں اپنے بچوں کو بھی لے کر آئیں۔
معروف شاعر افتخار عارف نے کہاکہ آرٹس کونسل اردو سمیت پاکستان کی تمام زبانیں بولنے والے لوگوں کو اردو کانفرنس میں بلاتی ہے، میں اٹھارہ سال سے یہاں آرہا ہوں، تمام زبانوں کے اہل قلم یہاں آکر مکالموں کی روایت کو بڑھاتے ہیں، کوئی بھی شخص جو اپنی مادری سے زبان سے محبت کرتا ہے یہ ممکن نہیں کہ وہ دوسروں کی مادری زبان سے محبت نہ کرے، یہ ہماری ضرورت اور اہمیت ہے، ہم سے زیادہ کسی نے اس زبان کے مسئلے پر نقصان نہیں اٹھایا، اب ہمیں سوچنا چاہیے، سمجھنا چاہیے ، غور کرنا چاہیے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos