میگزین رپورٹ:
انقرہ میں ہونے والا طیارہ حادثہ کوئی فنی خرابی نہیں، بلکہ دو غیر ملکی ایجنسیوں کی سوچی سمجھی تخریب کاری ہے۔ ترک میڈیا ٹی آر ٹی اور ینی شفق کے مطابق موساد نے فرانس اور ویگنر گروپ کے ساتھ انٹیلی جنس کوآرڈینیشن کے ذریعے لیبیا کی عسکری قیادت کو ترک سرزمین پر نشانہ بنایا۔ جس کا واحد مقصد انقرہ کے بڑھتے ہوئے علاقائی اثر و رسوخ کو کاری ضرب لگانا ہے۔ کیونکہ انقرہ اور طرابلس کے اتحاد نے اسرائیل کے سیاسی اور دفاعی مفادات کی بنیادیں ہلا دی تھیں۔
رپورٹ کے مطابق موساد ایک طویل عرصے سے لیبیا کی عسکری قیادت کو سافٹ ٹارگٹ بنانے کیلئے گھات لگائے بیٹھی تھی۔ آپریشن کیلئے اس نازک لمحے کا انتخاب کیا گیا جب لیبیا کے آرمی چیف محمد الحداد ڈرون ٹیکنالوجی کی منتقلی کے کامیاب ترین مذاکرات مکمل کرکے فالکن 50 میں سوار ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق انقرہ سے اڑان بھرنے کے محض 16 منٹ بعد فالکن 50 طیارے کا اچانک رابطہ منقطع ہونا اور پائلٹ کی جانب سے الیکٹریکل فیلیئر کی ہنگامی اطلاع ایک ایسے معمے کو جنم دیتی ہے، جو محض حادثہ معلوم نہیں ہوتا۔
ڈیسالٹ کمپنی کا تیار کردہ یہ طیارہ اپنے تہرے انجن اور مضبوط بیک اپ سسٹمز کے باعث دنیا کے محفوظ ترین وی آئی پی طیاروں میں شمار ہوتا ہے۔ جہاں تمام برقی سرکٹس کا بیک وقت بیٹھ جانا تکنیکی طور پر تقریباً ناممکن ہے۔ ہوا بازی کے ماہرین اسے ایک منظم سائبر دہشت گردی قرار دے رہے ہیں۔ جس میں ممکنہ طور پر جدید الیکٹرانک جنگی ہتھیاروں یا سافٹ ویئر ہیکنگ کے ذریعے طیارے کے نیویگیشن سسٹم کو مفلوج کیا گیا۔
اس معاملے میں نیا موڑ اس وقت آیا جب ترکیہ کے علاقے حیمانہ میں نصب سیکورٹی کیمروں کی فوٹیج منظرِعام پر آئی۔ جس نے تکنیکی خرابی کے سرکاری بیانیے پر کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ اس فوٹیج میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ طیارہ زمین بوس ہونے سے پہلے ہی فضا میں ایک زوردار دھماکے اور تیز روشنی کے گولے میں تبدیل ہوگیا۔ یہ بصری شواہد اس امکان کو مزید تقویت دیتے ہیں کہ طیارہ محض برقی خرابی کا شکار نہیں ہوا۔ بلکہ اس کے اندر کوئی دھماکہ خیز مواد نصب تھا یا اسے فضا میں ہی کسی بیرونی ہتھیارسے نشانہ بنایا گیا۔
تجزیہ کاروں نے اس بات کی جانب بھی اشارہ کیا ہے کہ لیبیا کی عسکری قیادت کو ختم کرنے کیلئے منظم جال بچھایا گیا تھا، جس کا مقصد اس تخریب کاری کو ایک حادثے کا رنگ دے کر اصل کرداروں کو پردے کے پیچھے رکھنا تھا۔ طیارے میں لیبیا کے آرمی چیف جنرل محمد الحدادکے ہمراہ گراؤنڈ فورسز کے سربراہ جنرل الفطوری غریبل اور ملٹری مینوفیکچرنگ کے ڈائریکٹر جنرل جمال الفطیسی جیسی کلیدی شخصیات سوار تھیں۔ جو ترکیہ کے ساتھ دفاعی پیداوار اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کے حساس ترین منصوبوں پر کام کر رہی تھیں۔
حیرت انگیزطور پر یہ حادثہ اس کے اگلے ہی دن پیش آیا جب ترک پارلیمنٹ نے لیبیا میں اپنی فوجیوں کے قیام میں دو سال کی توسیع کا بل منظور کیا۔ عرب میڈیا میں گردش کرنے والی حالیہ رپورٹس نے اس تنازع میں ایک نیا موڑ پیدا کر دیا ہے۔ جہاں لیبیا کے بعض اعلیٰ حکام کے اسرائیل کے ساتھ مبینہ خفیہ رابطوں کا انکشاف ہوا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس پسِ منظر میں موساد کی بالواسطہ یا براہِ راست مداخلت کے امکانات کو نظرانداز کرنا ناممکن ہے۔ کیونکہ جنرل محمد الحداد کا سخت گیر موقف خطے میں اسرائیلی مفادات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تصور کیا جاتا تھا۔
دوسری جانب لیبیا کے مشرقی حصے کے کمانڈر خلیفہ حفتر اور جنرل محمد الحداد کے مابین اقتدار کی طویل کشمکش کے پسِ منظر میں دفاعی ماہرین کا یہ تجزیہ سامنے آیا ہے کہ جنرل الحداد کی موت تریپولی حکومت کو کمزور کرنے والی قوتوں کیلئے سب سے زیادہ سود مند ثاب
ت ہوگی۔ حادثے کا شکار ہونے والا ’فالکن 50 ایک نجی جیٹ تھا۔ جس کا عملہ فرانسیسی شہریوں پر مشتمل تھا۔ چونکہ لیبیا کے معاملے پر فرانس اور ترکیہ کے مفادات میں ماضی سے تنازع موجود ہے۔ اس لیے اس پہلو کو خصوصی اہمیت دی جا رہی ہے۔ ان حالات کے پیشِ نظر لیبیا کی حکومت نے ایک اعلیٰ سطح کی ہنگامی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے کر انقرہ روانہ کردی ہے۔ جبکہ ترکیہ کے پراسیکیوٹرز نے بھی اس واقعے کو غیر معمولی قرار دیتے ہوئے تمام پہلوؤں پر تفتیش کا آغاز کر دیا ہے۔ جس میں تخریب کاری کے امکان کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos