براعظم افریقہ میں ’’ صومالی لینڈ‘‘ نام کا ایک ملک موجودہے، اس بارے میں عام طورپر زیادہ معلومات نہیں ۔ لیکن گذشتہ روزاسرائیل نے اسے تسلیم کرنے کا اعلان کیا اور اس کے لیے دونوں ملکوں نے باضابطہ طورپر ایک دستاویزپر دستخط کیے۔ اس پیش رفت کے ساتھ ہی کچھ معاملات خاص طورپر ابھر کرسامنے آئے ہیں۔
صومالی لینڈ نے 1960 میں26جون سے یکم جولائی تک صرف 5 دن کے لیے آزادی حاصل کی تھی اور اس دوران بھی اسرائیل سمیت 35 ممالک نے اسے تسلیم کیا ۔تاہم5 دن بعد صومالی لینڈ نے اطالوی صومالی لینڈ کے ساتھ مل کر صومالیہ تشکیل دیاتھا لیکن یہ یونین 1980 کی دہائی میں ہلاکت خیزخانہ جنگی کے دوران ٹوٹ گئی، جس کے نتیجے میں 1991 میں صومالی لینڈ کی خودمختاری بحال ہوئی۔ صومالی لینڈ کے لوگ اپنی آبائی زمینوں میں مقامی باشندے ہیں اور اپنے حق خود ارادیت کا استعمال کر رہے ہیں۔
خودمختاری کا اعلان کرنےکے باوجود کسی ملک نےاب تک اسے رسمی طور پر تسلیم نہیں کیا تھا البتہ برطانیہ، ایتھوپیا، ترکی، متحدہ عرب امارات، ڈنمارک، کینیا اور تائیوان جیسے ممالک نے وہاں رابطہ دفاتر قائم کیے ہوئے ہیں۔
یہ خطہ شمال مغربی حصے پر مشتمل ہے جو کبھی شمالی صومالیہ میں برطانوی پروٹیکٹوریٹ تھا۔صومالی لینڈ نے اپنی کرنسی، پرچم اور پارلیمنٹ کے ساتھ الگ سیاسی شناخت اختیارکی ہے۔
صومالیہ نے کبھی صومالی لینڈ کی آزادی کو قبول نہیں کیا۔
صومالی لینڈ ایک وحشیانہ خانہ جنگی کے دوران صومالیہ سے الگ ہواتھا جو کئی دہائیوں تک سیاد بیری (Siad Barre)کی آمرانہ حکومت کے تحت چلی، جس کی افواج نے شمال کو تباہ کر دیاور صومالیہ کے بڑے حصے افراتفری کا شکار ہو گئے،تاہم صومالی لینڈ 1990 کی دہائی کے آخر تک مستحکم ہو گیا۔
مونٹیویڈیو کنونشن (Montevideo Convention)کے تحت، صومالی لینڈ ریاست کہلانے کی اہل ہے۔اس کی مستقل آبادی 5 ملین سے زیادہ ہے،واضح سرحدوں کے ساتھ متعین علاقہ،باقاعدہ انتخابات کرانے والی موثر حکومت،اور بین الاقوامی تعلقات کی صلاحیت حاصل ہے۔
مزید پڑھیں: اسرائیل نے صومالی لینڈ کو سرکاری طور پر تسلیم کر لیا
الجزیرہ کے مطابق اس سال کے شروع میں،ایسی رپورٹس آئی تھیں کہ صومالی لینڈ کو تسلیم کرنے کے لیے غزہ سے فلسطینیوں کو زبردستی وہاں منتقل کرنے کے منصوبے کی شرط رکھی گئی ہے۔ مصر، ترکی، صومالیہ اور جبوتی کے وزرائے خارجہ نے اس طرح کے اقدام کے خلاف خبردار کیا تھا۔شرکاء نے فلسطینی عوام کو ان کی سرزمین سے بے گھر کرنے کے کسی بھی منصوبے کو دوٹوک طور پر مسترد کرنے کی بھی توثیق کی۔مصری وزارت خارجہ نے کہا تھاکہ یہ ایسے منصوبے ہیں جن کو دنیا کی اکثریتی اقوام نے تصوراورعملی صورت دونوں میں واضح طور پر مسترد کر دیا ہے۔
اس معاملے کی بڑی واضح اور صاف تصویر اسرائیلی میڈیانے بیان کی ہے۔ٹائمزآف اسرائیل کے مطابق بحیرہ احمر میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان، اسرائیل کا صومالی لینڈ کی حقیقی خودمختاری کو تسلیم کرنے، سلامتی اور تجارت میں غیر رسمی تعلقات کو استوار کرنے کا ’سہراموساد کے سر‘ہے۔
صومالی لینڈ کے لیے، یہ سفارتی شناخت کئی دہائیوں کی تنہائی کے بعد عالمی قانونی حیثیت کی جانب ایک یادگار قدم ہے، خاص طور پر ایک سنی مسلم ملک کے طور پر جس نے غیر مستحکم ہارن آف افریقہ میں استحکام برقرار رکھا ہے۔ یہ اسرائیل کی صورت میں ایک طاقتور اتحادی حاصل کرتا ہے،جو ممکنہ طور پر مزید سفارتی دروازے، تجارتی مواقع، اور اقتصادی امداد حاصل کرنے میں مددگارہوگا۔ 1990 کی دہائی سے اسی ایک چیز کی کمی تھی جب یہ ایک خودمختار ریاست بنی۔
گزشتہ برسوں میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے بربیرا بندرگاہ، سڑک کے بنیادی ڈھانچے اور ہرگیسا ہوائی اڈے کو اپ گریڈ کرنے سے اس کی معیشت کو ایک بڑا فروغ ملا ہے۔ نیز یو اے ای صومالی لینڈ اور ایتھوپیا کے ساتھ بربیرا بندرگاہ سے ایتھوپیا کے لیے ریل روڈ بنانے پر بھی کام کر رہا ہے۔اسرائیل کے لیے، اس نے اہم جہاز رانی کے راستوں کے قریب ایک اسٹریٹجک قدم جما لیا ہے، جو حوثی حملوں اور ایرانی اثر و رسوخ جیسے خطرات کے خلاف دفاع کو بڑھاتا ہے۔ یہ شراکت داری وسیع تر جغرافیائی سیاسی تبدیلیوں کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے، ان میں صومالی لینڈ کی بربیرا بندرگاہ میں متحدہ عرب امارات کی سرمایہ کاری اور ایتھوپیا کے تجارتی مفادات، عدم استحکام سے دوچار خطے میں باہمی فوائد کو بڑھاناشامل ہے۔
انتشار سے متاثرہ صومالیہ کے برعکس، جس میں جنگجوؤں، الشباب کی دہشت گردی، قزاقی اور قحط کا دوردورہ ہے،صومالی لینڈ میں مستحکم اور فعال جمہوریت ہے جس کے تحت متعدد انتخابات،پرامن انتقال اقتدار، اور اقتصادی ترقی ہوئی۔ بربیرا میں ایک فروغ پزیر بندرگاہ ہے جسے متحدہ عرب امارت کی بڑی سرمایہ کاری کے ساتھ اپ گریڈ کیا گیا ہے۔
اخبارنے کہاہے کہ اسرائیل اس اتحاد سے بہت زیادہ فائدہ اٹھانے والا ہے، خاص طور پر بہتر سیکورٹی کے ذریعے۔ صومالی لینڈ کا محل وقوع یمن سے صرف 300-400 کلومیٹر،حوثی میزائلوں، ایرانی پراکسیوں، بحری قزاقی اور خطے میں چینی توسیع کے خلاف یہ ایک ’’ فارورڈ ڈیفنس بیس‘‘ ہے۔اسرائیلی فوج کی موجودگی کے امکان میں F-35 جیٹ طیاروں کے ساتھ فضائی اجزاء اور تیز رفتار حملوں کے لیے ڈرون، آبنائے باب المندب کو محفوظ بنانے کے لیے بحری گشت اور انٹیلی جنس شیئرنگ کے لیے خصوصی دستے شامل ہو سکتے ہیں۔ بدلے میں، اسرائیل مقامی مدد اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دینے کے لیے ڈی سیلینیشن پلانٹس، طبی کلینک اور بنیادی ڈھانچے جیسی امداد فراہم کر سکتا ہے۔یہ سیٹ اپ ابراہم معاہدے کے تحت اسرائیل کی کامیاب شراکت داری کا آئینہ دار ہے، جس کی بدولت، ملکی وسائل کوبروئے کار لائے بغیر، بحیرہ احمر کے ساتھ اس کی حفاظت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ایرانی اتحادی، قطر اور ترکی ممکنہ طور پر اسے ایک خطرہ کے طور پر دیکھیں گے، ممکنہ طور پر پراکسی تنازعات کو بڑھا ئیں گے، لیکن چونکہ ایران کے پراکسی اب تک اسرائیلی حملوں سے دوچار ہیں،ان کا دوبارہ بڑھنامشکل ہوگا اور ایران خود 12 روزہ جنگ کے بعد سے بری طرح کمزور ہو چکا ہے، حالانکہ وہ اپنی قوت بحال کر رہے ہیں اور اپنے فوجی اثاثوں کو دوبارہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔تاہم، صومالی لینڈ کے لیے یہ اس کے اتحادیوں جیسے متحدہ عرب امارات اور ایتھوپیا کے تعاون سے قابل عمل ہے جن کے اسرائیل کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں۔۔دوسرے زاویوں میں صومالی لینڈ کا مقامی خود ارادیت، صومالیہ کے مسلط کردہ اتحاد سے متصادم، اور’ غزہ کی پٹی سے فلسطینیوں کی ممکنہ دوبارہ آباد کاری کے حوالے سے اسرائیل اور صومالی لینڈ کے درمیان جاری بات چیت‘ کی غیر مصدقہ اطلاعات شامل ہیں۔
مجموعی طور پر، عملی استحکام اور حق خود ارادیت پر موجودہ سرحدوں کوترجیح دینے کی حمایت سے یہ معاہدہ افریقی یونین کی پرانی پالیسیوں کو چیلنج کرتا ہے ۔ بین الاقوامی برادری عام طور پر موجودہ سرحدوں کو حق خودارادیت پر اس لیے ترجیح دینا پسند کرتی ہے کہ یہ دوسرے ممالک میں علیحدگی پسندی کے لیے مثالیں قائم کرے گی۔حق خودارادیت بین الاقوامی قانون میں مساوی حقوق ہیں، موجودہ سرحدوں کی ترجیح ایک سیاسی انتخاب ہے۔ حالانکہ اس جیسی مزاحمت پر قابو پانا آسان نہیں لیکن کوسوو جیسی مثالیں ہمیں دکھاتی ہیں کہ اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
صومالی لینڈ کی اسرائیلی شناخت ایک ڈومینو ایفیکٹ کو جنم دے سکتی ہے، جس سے امارات، ایتھوپیا، امریکہ ،برطانیہ اور دیگر ممالک کو بھی پیروی کرنے کی ترغیب مل سکتی ہے، ان میں سے زیادہ تر قوموں کے پہلے ہی صومالی لینڈ میں رابطہ دفاتر ہیں اوروہ صومالی لینڈ میں اقتصادی اور،یا سلامتی کے مفادات رکھتے ہیں۔صومالی لینڈ کے لیے، سفارتی شناخت کا فائدہ اس وقت ہوگا جب مزیدپیش رفت سے بین الاقوامی بینکنگ تک رسائی حاصل ہوجائے، اور اگر اسے مزید ملکوں کی طرف سے تسلیم کیے جانے پر افریقی یونین اور اقوام متحد ہ میں مبصر کی حیثیت و رکنیت ملے، اور تجارتی تعلقات بڑھیں۔ اسرائیل نے،زراعت،ٹیکنالوجی اور وسائل میں مشترکہ منصوبوں کے امکانات کے ساتھ انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک قابل اعتماد پارٹنر حاصل کیا ہے، صومالی لینڈ معدنیات اور قیمتی دھاتوں سے مالا مال ہے۔
ترک خبررساں ادارے نے بتایا ہے کہ صومالی وزیراعظم کے دفتر نے اس معاملے پر جو پریس ریلیزجاری کی ہے اس میں کہا گیاہے کہ ’’حکومت نے فلسطینیوں کے حقوق کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ صومالیہ "قبضے، جبری نقل مکانی، آبادیاتی انجینئرنگ، اور آبادکاری کی توسیع کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔ صومالیہ کبھی فلسطینی عوام کو بے وطن بنانا قبول نہیں کرے گا‘‘۔اس نے غیر ملکی فوجی اڈوں کے خلاف بھی انتباہ کیا جو ملک کو پراکسی تنازعات یا علاقائی اور بین الاقوامی دشمنیوں کی درآمد میں گھسیٹ سکتے ہیں۔
سی این این کا کہناہے کہ مارچ میں، صومالیہ اور صومالی لینڈ نے غزہ سے فلسطینیوں کو دوبارہ آباد کرنے کے لیے امریکہ یا اسرائیل کی کوئی تجویز موصول ہونے کا انکار کیاتھا، موغادیشو نے کہا تھاکہ اس نے ایسے کسی بھی اقدام کوقطعی طورپر مسترد کر دیا ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos