غزہ پر اسرائیلی مظالم سے فلسطینی کسی نہ کسی طرح لڑتے آئے ہیں۔ تاہم ، غزہ کے نوجوان اس کا مقابلہ کس طرح کررہے ہیں،یہ مزاحمت کی ایک غیر معمولی کہانی ہے جو ایک ایسی ہی فلسطینی طالبہ نے الجزیرہ کو خط لکھ کر بتائی ہے ۔
میں نے ابھی یونیورسٹی میں انگریزی ترجمے( کی ڈگری) کا تیسرا سال شروع کیا تھا جب (حماس۔اسرائیل)جنگ شروع ہوئی۔ اس حملے نے میری زندگی کو الٹ دیا،اس نے رنگ مٹا دیے، خوابوں کو منتشر، اور میری روح کو توڑ دیا۔ یونیورسٹی کی تعلیم میری زندگی اور خواہش کا مر کز تھی جورک گئی۔ غزہ خود ہی غیر معمولی تباہی سے رک سا گیا۔
غزہ کے تمام خاندانوں کی طرح، میں اور میرے خاندان نے اس جنگ کے دوران بہت نقصان اٹھایا ہے۔ دو سال کی نسل کشی نے ہماری صحت اور توانائی چھین لی۔ ہمیں 10 بار گھرچھوڑنے پر مجبور کیا گیا، شمالی غزہ سے جنوب میں خان یونس، پھر رفح، پھر وسطی غزہ میں دیر البلاح منتقل ہوئے۔ ایک سال سے زیادہ عرصے کے بعد، ہم غزہ شہر واپس آئے، واپسی کے آٹھ ماہ بعد ہی ایک بارپھربے گھر ہوکر خان یونس جاناپڑا۔ ہمارے گھر کو بری طرح نقصان پہنچا۔ اب ہم اس میں دیواروں کی بجائے ترپالوں کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔
2024 کے موسم گرما میں، یونیورسٹیاں دوبارہ کھل گئیں لیکن صرف آن لائن پڑھائی کے لیے۔ میں نے رجسٹریشن کی، اس لیے نہیں کہ مجھے اب بھی یقین ہے کہ میں ایک ٹیچنگ اسسٹنٹ بننے کے اپنے خواب کو پورا کر سکتی ہوں، بلکہ اس لیے کہ میں نے جو کچھ شروع کیا تھا اسے مکمل کرنا چاہتی ہوں۔
ایک خیمے کے اندر سے، غیر مستحکم انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئےمیں نے اپنا تیسرا سال مکمل کیا – وہ سال جو مجھے لیکچرر بنانے والا تھا -۔فروری میں، میرا آخری سال شروع ہوا۔ چند ماہ بعد قحط پڑ گیا۔ خوراک کی کمی، نقل مکانی اور بمباری کے مسلسل خوف سے میری صحت خراب ہونے لگی۔ تقریباً 15 کلو وزن کم اورجسم کمزور ہو گیا، کھانے کو کچھ نہ ملنے کی وجہ سے مجھے مسلسل چکر آتے۔ کسی وقت، ہمیں دن میں صرف ایک کھانا ملتا، جو بچوںکے لیے بمشکل کافی ہوتا ۔فاقوں سے میری ہڈیاںنمایاں ہوتی جا رہی تھیں۔
میں نے اپنے خاندان کے افراد خصوصاً اپنی والدہ کے وزن میں شدید کمی کو بھی محسوس کرنا شروع کر دیا۔یہ ایسے لمحات تھے جب مجھے لگاکہ ہم انہیںکھودیں گے۔ میں رات 8 بجے کے بعد جاگنے سے ڈرنے لگی، اس بھوک کے ڈر سے جو میں مسلسل محسوس کرتی۔
تمام تر مشکلات کے باوجود میں نے فیصلہ کیا کہ جنگ مجھے توڑنہیں سکتی۔ میں اپنے آپ کو یاد دلاتی رہی کہ غزہ ہر چیز کی سرزمین ہے، اور جو چیز اہم ہے وہ لمحہ موجودہے۔ایک رات، میں نےایک پراجیکٹ شروع کرنے کا فیصلہ کیا اگر میں علم سے دماغ روشن نہیں کر سکتی، تو میں فون روشن کر سکتی ہوں ،انہیں چارج کر سکتی ہوں۔ میں نے اپنے خاندان کے ساتھ ایک چھوٹے سے سولر پینل کا استعمال کرتے ہوئے فون چارج کرنے کا ایک پروجیکٹ شروع کرنے کا خیال شیئر کیا، انہوں نےمکمل تعاون کیا۔ اگلی صبح، میں نے کاغذ کے ایک ٹکڑے پر لکھا: ’’فون چارجنگ پوائنٹ‘‘اور اسے اپنے خیمے کے باہر لٹکا دیا۔ فون چارج کرنے کی سہولت مہیاکرنے والی کاروباری مالک کے طور پر میرا کیریئر شروع ہوگیا۔
میں نے نمبر والے کارڈ بنائے اور انہیں ہر فون کے ساتھ منسلک کیا تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ کوئی بھی گم نہ ہو۔ میرے دن ان آوازوں سے بھر گئے،’’ فون نمبر 7 کیسا ہے؟‘‘ میں ظاہری طور پر مسکراتی، لیکن اندر، مجھے ایک گہرا درد ہوتا – یونیورسٹی کا میرا آخری سال ایسا ہوگاکبھی سوچا بھی نہ تھا۔
میں ابر آلود موسم، بہت زیادہ فونز اور آخری امتحانات کے ساتھ جدوجہد کر رہی تھی۔ ہر گزرنے والا بادل کا ٹکڑا جس نے سورج کو روکا،اس نے بجلی کی سپلائی منقطع کردی کیونکہ میرے پاس بڑی بیٹری نہیں تھی۔ ان لمحوں میں، میں تھکن اور بے بسی سے روپڑتی۔ہر روز، میں نے تقریباً 10 ڈالر کمائے، جو کہ انٹرنیٹ کارڈز اور سادہ چیزیں خریدنے کے لیے کافی ہیں، جو کبھی آسانی سے مل جاتی تھیں، جیسے چپس کا پیکٹ یا جوس کا ایک ڈبہ۔ میں وہیں بیٹھی، فون چارج ہوتے دیکھتی اورسوچتی کہ اس وقت مجھے یونیورسٹی میں ٹیچنگ اسسٹنٹ ہوناچاہیے تھا۔
میں نے اکتوبر میں اپنے آخری امتحانات اس وقت دیئے تھے جب میں فونز میں گھری ہوئی تھی جو ابر آلود آسمان کی وجہ سے چارج نہیں ہو رہے تھے، میرے چہرے پر آنسو بہہ رہے تھے۔میں غزہ کے ان لاکھوں نوجوانوں میں سے ایک ہوں جنہوں نے جنگ کو ہماری کہانیوں کا خاتمہ نہیں کرنے دیا،تعلیم ہماری مزاحمت کی شکل ہے۔ اسی لیےاسے تباہ کرنے کی کوشش ہوئی۔ اس کوشش کے پیچھے ہمیں جہالت، مایوسی اور دستبرداری کے اندھیروں میں دھکیلنے کی امیدتھی۔اس کے باوجود غزہ کے نوجوان ناقابل شکست ہیں۔ ہم نے مسلسل انٹرنیٹ بلیک آؤٹ کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنی آن لائن تعلیم کو جاری رکھا ۔ ہم اپنی اور اپنے خاندانوں کی کفالت کرتے رہے، گلیوں میں چھوٹے اسٹالوں پر کھانا بیچ رہے ہیں، ٹیوشن پڑھا رہے ہیں، یا چھوٹے کاروبا کر رہے ہیں۔بہت سے لوگ اسکالرشپ کے لیے بھی درخواست دے رہے ہیں تاکہ وہ بیرون ملک اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔
میں اب اپنی ماسٹر ڈگری کے لیے غزہ سے باہر اسکالرشپ کے لیے درخواست دے رہی ہوں۔ میں بیرون ملک جانا چاہتی ہوں، پڑھنا چاہتی ہوں اور پھر ایک دن فون چارج کرنے کے لیے نہیں بلکہ دماغوں کو چارج کرنے کے لیے واپس آنا چاہتی ہوں۔ اگر اسکالرشپ مل گئی تو میں اپنا چھوٹا فون چارج کرنے کا پراجیکٹ اپنے چھوٹے بھائی انس کے حوالے کر دوں گی، جس کا خواب صحافی بن کر غزہ اور اس کے لوگوں کے بارے میں سچ بتانا ہے۔
یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ غزہ کے نوجوان زندگی سے پیار کرتے ہیں، اپنے وطن سے پیار کرتے ہیں، اور اسے دوبارہ تعمیر کرنے کے لیے پرعزم ہیں، جیسا کہ پہلے تھا، بلکہ اس سے بھی بہتر۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos