صومالیہ کے وزیرِ اطلاعات داؤد اویس نے کہاہے کہ اسرائیل صومالی لینڈ میں فوجی اڈے قائم کرنا چاہتا ہے۔عرب میڈیاکے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ نے اسرائیل کی جانب سے صومالی لینڈکو تسلیم کیے جانے کے فیصلے کو مسترد کرنے کی توثیق کر دی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ اسرائیل کا صومالی لینڈ کو تسلیم کرنا علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ ہے اور انہوں نے اسے صومالیہ کی خود مختاری کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔انہوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اسرائیل ایسی کارروائیوں میں ملوث ہے جو ان کے ملک کی خود مختاری کو متاثر کرتی ہیں۔
مزید پڑھیں: ’’صومالی لینڈ‘‘اسرائیل کے کس کام آنے والا ہے؟
صومالی وزیر اطلاعات نے واضح کیا کہ صومالیہ اس خطے میں کسی بھی قسم کی آباد کاری کی کارروائیوں کو قبول نہیں کرے گا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ صومالی لینڈ کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل صومالی لینڈ کے معاملے پر سرکاری موقف کی توثیق کرے گی۔ادھریمن کی حوثی ملیشیانے خبردار کیاہے کہ صومالی لینڈمیں کوئی بھی اسرائیلی موجود ’’ فوجی ہدف‘‘ تصورکی جائے گی۔ایک بیان کے مطابق گروپ نے سربراہ عبدالمالک حوثی نے کہا کہ ہم صومالی لینڈمیں اسرائیلی موجودگی کو اپنے لیے ایک فوجی ہدف سمجھتے ہیں ۔کیوں کہ یہ صومالیہ اور یمن کے خلاف جارحیت اور خطے کی سلامتی کو خطرہ ہے۔حوثی سربراہ نے کہا کہ اس اقدام کے سنگین نتائج برآمدہوں گے۔
ممتاز عرب تحزیہ نگار عبدالباری عطوان نےصومالی لینڈکو تسلیم کرنے کے صیہونی حکومت کے اقدام کو عرب ملکوں کی تقسیم کی راہ میں پہلا قدم قرار دیا ہے- عبدالباری عطوان نے غاصب صیہونی حکومت کے غیر قانونی اقدام کے پانچ اہداف بیان کئے ہیں اور کہا ہے کہ مصر اور سعودی عرب بھی بڑے خطرات سے روبرو ہیں۔عطوان کے مطابق صیہونی حکومت کے اس غیر قانونی اقدام کا پہلا ہدف غزہ کے لاکھوں مظلوم فلسطینیوں کو ان کی آبائی سرزمین سے بے دخل کرنا بتایا ہے۔ اس حوالے سے صیہونی وزیر اعظم نام نہاد صومالی لینڈ علیحدگی پسند تحریک کے سربراہ کے ساتھ خفیہ ملاقاتوں میں ضروری مشاورتیں انجام دے چکے ہیں۔ غزہ کے باشندوں کو جبری طور پر زمینی اور فضائی راستوں سے منتقل کرنے کے منصوبوں کی خبریں آچکی ہیں۔انھوں نے دوسرا ہدف خلیج عدن اور باب المندب میں فوجی اڈے قائم کرنا اور بحیرہ احمر نیز اس کے مغربی ساحلوں پر تسلط بتایا ہے۔ تیسرا ہدف ایشیا اورمشرقی افریقہ کے ساتھ اسرائيل کی بحری تجارتی راستوں کو پرامن بنانا ہے جو یمن سے حملوں کے ذریعے اسرائیل کے لئے بحیرہ احمر کو بند کئے جانے کے نتیجے میں رک گئی ہے۔عطوان کا کہناہے کہ صومالی لینڈکو تسلیم کرنے کا چوتھا مقصد نہر سوئز پرکنٹرول اور مصر کو بلیک میل کرنا ور پانچواں ہدف سبھی عرب ملکوں کی برآمدات کو خطرے میں ڈالنا ہے چاہے وہ آبنائے ہرمز سے انجام پائيں، یا متحدہ عرب امارت، سعودی عرب ، عمان اور یمن کی بندرگاہوں سے۔
دریں اثنا فلوریڈاپام بیچ پر اسرائیلی وزیراعظم سے ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں ، صدرٹرمپ نے غزہ سے فلسطینیوں کی ممکنہ نقل مکانی کے بارے میں سمیت کئی سوالات کو ٹال دیا۔ٹرمپ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم ابھی تنازع نہیں چاہتے۔اس دوران،صدر فلسطینی سینٹر فار پالیسی اینڈ سروے ریسرچ کے مئی میں ایک سروے کا اشارہ دیتے ہوئے دکھائی دیے جس میں پایا گیا کہ سروے میں شامل 49 فیصد لوگوں نے کہا کہ وہ غزہ چھوڑنے کے لیے درخواست دینے پر تیار ہوں گے۔تاہم، رائے شماری میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ آیا چھوڑنا عارضی ہوگا یا مستقل۔ پچھلے سروے میں دکھایا گیا ہے کہ آبادی کا صرف ایک حصہ ،غزہ کی تعمیر نو کی زیادہ حمایت کے ساتھ،مستقل نقل مکانی کاحامی ہے ۔
بہت سے فلسطینیوں نے ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ اگر وہ چلے گئے توواپس نہیں جا سکیں گے۔
ٹرمپ نے اس سے قبل فروری میں غزہ سے فلسطینیوں کی بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی تجویز دی تھی لیکن اس کے بعد سے وہ اس موقف سے ہٹ گئے ۔ٹرمپ نے آج کہاکہ میں نے ہمیشہ یہ کہا ہے اگر انہیں بہتر آب و ہوا میں رہنے کا موقع دیا گیا تو وہ منتقل ہو جائیں گے۔ وہ یہاں اس لیے ہیں کیونکہ اس وقت انہیں یہیں ہوناہے،میرے خیال میں یہ ایک بہت اچھا موقع ہوگا، لیکن دیکھتے ہیں کہ آیا یہ موقع خود کو پیش کرتا ہے لیکن ہم غزہ کے لوگوں کی بہت مدد کر رہے ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos