وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوانے نان کسٹم پیڈ گاڑیوں اور غیر قانونی کاروبارقائداعظم کے کھاتے میں ڈال دیئے۔ لاہور میں سینئر صحافیوں اور کالم نویسوں کی سہیل آفریدی سے ملاقات ہوئی، جس میں وزیر اعلیٰ سے متعدد اہم سوالات کیے گئے۔اس دوران صحافی منصور علی خان کے نان کسٹم پیڈ (NCP)گاڑیوں سے متعلق سوال پر سہیل آفریدی نے دعوی کیا کہ نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کی اجازت قائداعظم نے دی تھی، اور یہ کہ قائداعظم نے تمام قبائلی اضلاع کو سو سال کے لیے ٹیکس فری زون قرار دیا تھا۔
اس حوالے سے ماہرین کا کہناہے کہ آزادی کے وقت بعض قبائلی اور سرحدی علاقے ٹیکس سے مستثنیٰ ضرور تھے لیکن یہ استثنیٰ برصغیر کے نوآبادیاتی انتظامی ڈھانچے اور قبائلی معاہدوں کی بنیاد پر دیا گیا تھا۔ قائداعظم نے ان علاقوں کے عوام کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ عبوری طور پر اپنے موجودہ نظام کے تحت رہیں گے۔تاہم یہ بھی طے تھا کہ مستقبل میں ریاست قانون سازی یا آئینی ترامیم کے ذریعے ان علاقوں کو مکمل طور پر ریاستی نظم و نسق میں شامل کرے گی۔مالاکنڈ ڈویژن میں سوات، بونیر، شانگلہ، لوئر دیر، اپر دیر، چترال(اپر و لوئر)، مالاکنڈ اور کوہستان کے بعض حصے، سابقہ فاٹا میں خیبر، مہمند، باجوڑ، اورکزئی، کرم، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان وہ علاقے تھے جنہیں آزادی کے وقت وقتی رعایت دی گئی تھی۔
سیاسی تاریخ کے اسکالرزاس حوالے سے اہم نکتہ بتاتے ہیں کہ قائداعظم کی جانب سے کسی مخصوص مدت، خصوصاً سو سال، کا کوئی تعین نہیں کیا گیا یعنی یہ ٹیکس چھوٹ نہ تو مستقل تھی اور نہ غیر مشروط۔ اس کا انحصار ہمیشہ ریاست کی صوابدید، قانون سازی اور آئینی ترامیم پر رہا۔
اس معاملے پر سیاسی تجزیہ کاروں سے بھی رائے لی گئی۔ انہوںنے بتایا کہ یہ نظام اس لیے جاری رہا کہ طویل عرصے تک قانون سازی نہیں کی گئی، مگر وقت کے ساتھ انتظامی مشکلات اور بدلتے زمینی حقائق کے باعث ان علاقوں کو مکمل ریاستی نظام میں شامل کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔ اس فیصلے پر صوبائی حکومت، صوبائی اسمبلی، قومی اسمبلی اور تمام آئینی و قانونی تقاضے پورے کیے گئے۔بالآخر25ویں آئینی ترمیم کے ذریعے ان علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں آئین کا آرٹیکل 247ختم ہوا، جس کے تحت یہ علاقے وفاقی اور صوبائی قوانین، بشمول ٹیکس قوانین، سے مستثنی تھے۔آرٹیکل 247 کے خاتمے کے بعد عام ٹیکس قوانین خود بخود ان علاقوں پر لاگو ہو گئے، اگرچہ اس کے باوجود وفاقی حکومت نے عبوری بنیادوں پر مزید رعایتیں بھی فراہم کیں۔ جہاں تک نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا تعلق ہے، تو 2024کے آخر میں جب خیبر پختونخوا میں موجود دو لاکھ سے زائد نان کسٹم پیڈگاڑیوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے اور ریگولرائز کرنے کا فیصلہ کیا گیا، تو اسمگلنگ، منشیات اور دہشت گردی سے جڑے بااثر گروہ فورا متحرک ہو گئے۔ان گروہوں کے مفادات براہِ راست اس غیر قانونی معیشت سے وابستہ ہیں۔
بتایاگیاہے کہ نیشنل ایکشن پلان میں نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے خلاف کارروائی ایک کلیدی نکتہ ہے، کیونکہ یہ گاڑیاں محض مالی بے ضابطگی نہیں بلکہ دہشت گردی، منشیات اسمگلنگ، اغوا برائے تاوان اور سرحد پار جرائم کے نیٹ ورکس کے لیے ایک محفوظ اور ناقابلِ سراغ سہولت فراہم کرتی ہیں۔چونکہ ان گاڑیوں کا کوئی باضابطہ ریکارڈ، رجسٹریشن یا ٹریکنگ سسٹم موجود نہیں ہوتا، اس لیے یہ ریاست مخالف سرگرمیوں کے لیے ایک مثالی ذریعہ بن چکی ہیں۔نیشنل ایکشن پلان اسی لیے نان کسٹم پیڈگاڑیوں کے مکمل خاتمے کو انسدادِ دہشت گردی کی حکمتِ عملی کا لازمی جزقرار دیتا ہے، تاکہ دہشت گردی، جرائم اور اسمگلنگ کے باہم جڑے نیٹ ورکس کی لاجسٹک بنیاد کو ختم کیا جا سکے۔
حقیقت یہ ہے کہ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں سیاسی سرپرستی میں چلنے والے ایک وسیع ٹیررکرائم اسمگلنگ نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ایسا نیٹ ورک جو نہ صرف مقامی معیشت کو یرغمال بنائے ہوئے ہے بلکہ ریاستی رٹ کو بھی کھلے عام چیلنج کر رہا ہے۔ذرائع کا کہناہے کہ24نومبر 2024کو پی ٹی آئی کے لانگ مارچ اور احتجاج کے دوران خیبر پختونخوا سے اسلام آباد
اور راولپنڈی کی جانب نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے ذریعے منشیات اور اسلحے کی اسمگلنگ کے انکشافات نے اس حقیقت پر مزید مہر ثبت کر دی۔اسی پس منظر میں سہیل آفریدی کی جانب سے نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے لیے جواز تراشنا محض لاعلمی نہیں بلکہ ایک خطرناک اور غیر منطقی سیاسی بیانیہ ہے۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos