ڈنمارک میں ڈاک سے خطوط بھیجنے کا روایتی نظام ختم ہوگیا۔ یورپی ملک میں سرکاری پوسٹل سروس، پوسٹنورڈآج 31 دسمبر کو آخری خط منزل تک پہنچائے گی، کیونکہ ڈیجیٹل دور اس نظام کی 400 سالہ دوڑ پرغالب آگیاہے۔ یہ ڈنمارک کو دنیا کا پہلا ملک بناتا ہے جس نے یہ فیصلہ کیا کہ فزیکل میل اب ضروری یا معاشی طور پر قابل عمل نہیں ۔خطوط ڈاک خانوں اور لیٹر باکسزکے ذریعے پوسٹ کرنے کے بجائے، ڈینش عوام کو اب انہیں دکانوں پربنے کھوکھانماکیبنز(کیاسکس) پر چھوڑنا پڑے گا، جہاں سے انہیں نجی کمپنی کے ذریعے ملکی اور بین الاقوامی دونوں پتوں پر بھیج دیا جائے گا۔ تاہم پوسٹ نورڈ(PostNord )پارسل کی فراہمی جاری رکھے گا،، کیونکہ آن لائن خریداری ہمیشہ سے مقبول ہے۔
پوسٹ نورڈ جون سے ڈنمارک میں لگے 1500میل باکسز کو ہٹا رہا تھا۔ جب اس نے 10 دسمبر کو انہیں فروخت کر دیا تو لاکھوں ڈینی باشندوں نے اسے خریدنے کی کوشش کی۔ ہر میل باکس کے لیے، انہوں نے یا تو2 ہزار ڈینش کرونا (315ڈالر) یا1500ڈینش کرونا (236ڈالر) ڈینش کرونا اادا کیے۔
ڈنمارک دنیا کے سب سے زیادہ ڈیجیٹل ممالک میں سے ایک ہے؛ یہاں تک کہ اس کا پبلک سیکٹر کئی آن لائن پورٹلز کا استعمال کرتا ہے، اس رحجان سے روایتی طبعی خط و کتابت کم سے کم ہوگئی اور اسے دوسرے ملکوں کی نسبت پوسٹل سروسز پر بہت کم انحصار کرتا ہے۔تقریباً ہر ڈینش باشندہ مکمل طور پر ڈیجیٹل ہے، یعنی روایتی خطوط اب پہلے کی طرح زیراستعمال نہیں کرتے ۔پوسٹ نورڈ کے ترجمان کا کہناہے کہ زیادہ تر مواصلات اب ہمارے الیکٹرانک میل باکسز میں پہنچتے ہیں، اور آج حقیقت یہ ہے کہ ای کامرس اور پارسل مارکیٹ روایتی میل سے کہیں زیادہ ہے۔
پھر بھی،روایتی خط و کتابت کی ضرورت پوری دنیا میں جاری ہے، چاہے وہ کم ہو جائے۔ اقوام متحدہ سے وابستہ یونیورسل پوسٹل یونین کے مطابق، تقریباً2ارب 26 کروڑ لوگ آف لائن ہیں، اور بہت سے لوگوں کے پاس ناکافی آلات، ناقص کوریج اور محدود ڈیجیٹل مہارتوں کی بدولت بامعنی رابطے کی کمی ہے۔ ادارے کا کہناہے کہ ڈنمارک میں روایتی ڈاک ختم ہونے سے دیہی کمیونٹیز، خواتین اور غریب سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔
Ummat News Latest Urdu News in Pakistan Politics Headlines Videos