احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے نیب کی جانب سے دائر ریفرنس کی سماعت کی اور ریفرنس میں نامزد تینوں ملزمان نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر عدالت میں پیش ہوئے۔سماعت کے موقع پر سابق وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے ایک درخواست دائر کی گئی، درخواست میں استدعا کی گئی کہ دیگر ریفرنسز میں گواہان کے بیانات ریکارڈ ہونےکے بعد ان کا بیان ریکارڈ کیاجائے، جس پر ڈپٹی پروسیکیوٹر جنرل نیب سردارمظفر نے اعتراض کیا،اور عدالت نے نواز شریف کی درخواست مسترد کردی۔درخواست مسترد ہونے کے بعد نواز شریف نے بیان قلمبند کراناشروع کیا۔ بیان قلمبند کراتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ آصف علی زرداری کے ذریعے پیغام دیا گیا کہ پرویز مشرف کے دوسرے مارشل لاء کو پارلیمانی توثیق دی جائے لیکن میں نے ایسا کرنے سے انکار کیا، یہ ہے میرے اصل جرائم کا خلاصہ، اس طرح کے جرائم اور مجرم پاکستانی تاریخ میں جا بجا ملیں گے۔نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ مجھے نکالے جانے کی سب سے بڑی وجہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس ہے، میں نے اپنا گھر درست کرنے اور اپنے آپ کو سنوارنے کی بات کی ،میں نے خارجہ پالیسی کو نئے رُخ پر استوار کرنے کی کوشش کی۔ میں نے سرجھکا کر نوکری کرنے سے انکار کیا۔ آصف زرداری کے ذریعے مجھے پیغام دیا گیا کہ پرویز مشرف کے دوسرے مارشل لاء کو پارلیمانی توثیق دی جائے لیکن میں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔سابق وزیراعظم نے کہا کہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس قائم کرتے ہی مشکلات اور دباؤ بڑھادیا گیا، 2014 میں حکومت کے خلاف دھرنے کرائے گئے، ان دھرنوں کا مقصد مجھے دباؤ میں لانا تھا، امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے، کون تھا وہ امپائر؟ ،وہ جوکوئی بھی تھا اسکی پشت پناہی دھرنوں کو حاصل تھی، پی ٹی وی، پارلیمنٹ، وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر بھی فسادی عناصر سے محفوظ نہ رہ سکے، اس کا مقصد تھا کہ مجھے پی ایم ہاؤس سے نکال دیں اور پرویز مشرف کے خلاف کارروائی آگے نہ بڑھے، منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ میں دباؤ میں آجاؤں گا، ایک خفیہ ادارے کے سربراہ کا پیغام پہنچایا گیا کہ مستعفی ہوجاؤ یا طویل رخصت پر چلےجاؤ، طویل رخصت کا مطالبہ اس تاثر کی بنیاد پر تھا کہ نواز شریف کو راستے سے ہٹادیا گیا۔ جو کچھ ہوا سب قوم کے سامنے ہے، اب یہ باتیں ڈھکا چھپا راز نہیں ہیں۔فاضل جج کو مخاطب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ کاش آج آپ یہاں لیاقت علی خان اور ذوالفقار علی بھٹو کی روح کو طلب کرسکتے اور ان سے پوچھ سکتے کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا ،کاش آج آپ ایک زندہ جرنیل کو بلاکر پوچھ سکتے کہ اس نے آئین کے ساتھ کھلواڑ کیوں کیا، سارے ہتھیار اہل سیاست کے لیے بنے ہیں، جب بات فوجی آمروں کے خلاف آئے تو فولاد موم بن جاتا ہے، پرویز مشرف کے خلاف مقدمہ شروع ہوتے ہی اندازہ ہوگیا کہ آمر کو کٹہرے میں لانا کتنا مشکل ہوتا ہے، انصاف کے منصب پر بیٹھےجج پرویز مشرف کو ایک گھنٹے کے لیے بھی جیل نہ بھجواسکے، وہ پراسرار بیماری کا بہانہ بناکر دور بیٹھا رہا، جنوری 2014 میں وہ عدالت کے لیے نکلے تو طے شدہ منصوبے کے تحت اسپتال پہنچ گئے۔سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ مجھے کبھی آئینی مدت پوری کرنے نہیں دی گئی، مجھے جلاوطن کردیا گیا، میری جائیدادیں ضبط کرلی گئیں، واپس آیا تو ہوائی اڈے سے روانہ کردیا گیا، میں اس وقت بھی حقیقی جمہوریت کی بات کررہاتھا، فیصلے وہی کریں جنہیں عوام نے اختیار دیاہے، داخلی اور خارجی پالیسیوں کی باگ دوڑ منتخب نمائندوں کے پاس ہی ہو۔نواز شریف نے کہا کہ مجھے بے دخل کرنے اور نااہل قرار دینے والے کچھ لوگوں کو تسکین مل گئی ہوگی، مجھے سیسلین مافیا، گارڈ فادر، وطن دشمن اور غدار کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، میرے آباواجداد ہجرت کرکے یہاں آئے، میں پاکستان کا بیٹا ہوں مجھے اس مٹی کا ایک ایک ذرہ پیارا ہے، میں کسی سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینا اپنی توہین سمجھتاہوں، میری نااہلی اور پارٹی صدارت سے ہٹانے کے اسباب و محرکات کو قوم بھی اچھی طرح جانتی ہے، کیا میرے خلاف فیصلہ دینے والے ججوں کو مانیٹرنگ جج لگایا جا سکتا ہے؟ کیا کسی لفظ کی تشریح کے لیئے گمنام ڈکشنری استعمال کی جاتی ہے؟ کیا کسی سپریم کورٹ کے بینچ نے جے آئی ٹی کی نگرانی کی؟ کیا کسی نے اقامے پر مجھے نااہل کرنے کی درخواست دی تھی؟، یہاں جتنے گواہان پیش ہوئے کسی نے گواہی نہیں دی کہ میں نے کوئی جرم کیا، آپ اورمجھ سمیت سب کو اللہ کی عدالت میں پیش ہوناہے، ریفرنس کا فیصلہ آپ پر چھوڑ رہا ہوں۔علاوہ ازیں نواز شریف نے اپنے دفاع میں گواہ لانے سے بھی انکار کردیا۔ انہوں نے کہا کہ استغاثہ میرے خلاف جرم ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ میں اپنے حق میں گواہ کیوں لاؤں؟ نیب پراسیکیوشن میرے خلاف کچھ ثابت نہ کر سکی۔