اسلام آباد: سپریم کورٹ میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے متعلق کیس میں ریمارکس دیئے کہ ڈیم تو ہر حال میں بننا ہے۔ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے کچھ نہیں ہوا، سیاسی حکومتوں نے دس سال میں ڈیمز کی تعمیر کے لئے کیا کیا؟
سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر سےمتعلق کیس کی سماعت کی۔ سابق چیئرمین واپڈا شمس الملک عدالت میں پیش ہوئے اور ڈیم کی تعمیر کے حق میں دلائل دیئے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں 46 ہزار ڈیم تعمیر ہو چکے ہیں، چین میں 22 ہزار ڈیم بنائے گئے ہیں، چین ایک ڈیم سے 30 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرتا ہے۔ بھارت 4500 ڈیم تعمیر کر چکا ہے۔ کالاباغ ڈیم کی تعمیر نہ ہونے سے سالانہ 196 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ کیا پانی کے بغیر پاکستان کی بقا ممکن ہے؟ کوئٹہ میں زیر زمین پانی کی سطح خطر ناک حد تک گر چکی ہے، پانی کے مسئلے کے لئے کن اقدامات کی ضرورت ہے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بار بار کہہ رہا ہوں یہاں کالا باغ کی نہیں پاکستان ڈیم کی بات کررہا ہوں۔ پاکستان ڈیم نہیں بنائے گا تو 5 سال بعد پانی کی صورتحال کیا ہوگی۔ ڈیمز پاکستان کی بقا کے لئے نہایت ضروری ہیں۔ چاروں بھائیوں میں اتفاق ہونا چاہیے، ڈیمز بنانے کے لئے قربانی دینا ہوگی۔
جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ زمین بنجر ہوگی تو کسان مقروض ہو جائے گا، ہمیں ہنگامی اور جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا، لوگوں کو اکٹھا کریں تاکہ لوگوں کی تجاویز آئیں، سب کو مل بیٹھ کر معاملے کے حل کے لئے سوچنا ہوگا۔
اس موقع پر اعتزاز احسن نے دلائل دیئے کہ ڈیمز کے مخالفین سے بھی بات کرنا ہوگی۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جو ڈیم متنازعہ نہیں ان پر فوکس پہلے کیوں نہ کریں۔ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے کچھ نہیں ہوا، سیاسی حکومتوں نے دس سال میں ڈیمز کی تعمیر کے لئے کیا کیا؟ ڈیم تو ہر حال میں بننا ہے، یہ بتائیں ڈیمز کن جگہوں پر بنیں گے۔ مجھے مسئلے کا حل بتائیں۔ جب تک مسئلے کا حل نہیں نکلتا میں نے جانے نہیں دینا، مجھے بندے بتائیں ماہرین کے نام بتائیں، میں نے سب کو بلا کر اندر سے کنڈی لگا دینی ہے، کم از کم اس مسئلے پر گفت و شنید شروع کرنی چاہیے۔