عدلیہ کی آزادی سلب ہوچکی ہے،جسٹس شوکت صدیقی

راولپنڈی:اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے کہا ہے کہ مجھے کہا گیا کہ ہماری مرضی کے فیصلے دیں گے توآپ کے ریفرنس ختم کرادیں گے اورمجھے ستمبر میں چیف جسٹس بنوانے کی بھی پیش کش کی گئی لیکن مجھے نوکری کی پرواہ نہیں کیوں کہ جج نوکری سے نہیں بلکہ انصاف ،عدل اوردلیری کا مظاہرہ کرنے سے بنتا ہے۔
ڈسٹرکٹ بارایسوسی ایشن راولپنڈی سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے کہا کہ چیف جسٹس انورکاسی نے ایک قومی ادارے کو یقین دہانی کرائی تھی کہ جسٹس صدیقی کو بنچ میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ چیف جسٹس انورکاسی نے اس قومی ادارے سے کہا کہ جس طرح آپ کہیں گے ویسا ہی ہوگا۔

جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے کہا کہ آج کے اس دورمیں ایک قومی ادارہ پوری طرح عدالتی معاملات کو’’مینی پولیٹ ‘‘ کرنے میں ملوث ہے، اس قومی ادارے کے حکام اپنی مرضی کے بنچ بنواتے ہیں، اس قومی ادارے کے حکام نے ہمارے چیف جسٹس کو اپروچ کرکے کہا کہ نوازشریف اورمریم نوازکو الیکشن سے پہلے باہرنہیں آنے دینا۔

جسٹس صدیقی کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اس قومی ادارے کے نمائندوں سے کہا کہ جس بنچ سے آپ ایزی ہیں ہم وہ بنچ بنا دیتے ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے اس قومی ادارے کے نمائندوں کی اس بات کو تسلیم کرلیا اوران کی مرضی کا بنچ بنوایا جس نے سابق وزیراعظم کی اپیل کی سماعت کی اوراس اپیل کی اگلی سماعت عام انتخابات کے بعد رکھ دی۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ نہ صرف مرضی کے بنچ بنوائے جاتے ہیں بلکہ یہ بھی فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کون سا مقدمہ کون سے بینچ کو بھجوانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ احتساب عدالت کی ہر روز کی پروسیڈنگ کہاں جاتی رہی ہیں، معلوم ہے کہ سپریم کورٹ کون کس کا پیغام لے کرجاتا ہے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ ملک کی تقدیر کے ساتھ جو کھلواڑ کیا جا رہا ہے وہ بہت بدقسمی کی بات ہے۔

جسٹس صدیقی نے کہا کہ احتساب عدالت پراسلام آباد ہائی کورٹ کا ایڈمنسٹریٹو کنٹرول کیوں ختم کیا گیا، عدلیہ کی آزادی سلب ہوچکی ہے، آپ کی حویلی بندوق والوں کے کنٹرول میں ہے، مجھے نوکری کی پرواہ نہیں ۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے فوج کے خفیہ ادارے کے اہلکاروں سے دو ٹوک الفاظ میں کہہ دیا کہ وہ اپنے ضمیر کو گروی رکھنے پر موت کو ترجیح دیں گے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ پاکستان کا موازنہ امریکا یا یورپ کے ساتھ نہیں ہوسکتا بلکہ بھارت، بنگلہ دیش یا سری لنکا کے ساتھ ہوسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دس سال بعد میں بھارت دنیا کی ایک بڑی معیشت ہوگا اور ہم پیچھے کی طرف جا رہے ہیں،بھارت میں ایک دن کے لیے سیاسی عمل نہیں رکا، کبھی مارشل لا نہیں لگا، بھارت کے دشمن ملک ہونے کا بتایا جاتا ہے، یہ نہیں کہ ان کے لوگوں کو آرمی چیف کا نام معلوم نہیں ہوتا، بھارت میں بھی کرپشن اوربدانتظامی ہے مگر پھر بھی ترقی کی راہ پر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بارمیں آکر خود کو احتساب کے لئے پیش کرنے کی عرصے سے خواہش تھی کیوں کہ میرا احتساب میری بار ہی کرسکتی ہے اورمیرے اوپرآج تک کوئی کرپشن کا ایک الزام ثابت نہیں کرسکا۔
انہوں نے کہا کہ جب بھی کوئی اہم فیصلہ دیتا ہوں ایک مخصوص گروہ کی جانب سے مہم چلادی جاتی ہے اورکہا جاتا ہے کہ یہ وہی جج صاحب ہیں جن کے خلاف کرپشن ریفرنس زیرسماعت ہے۔
جسٹس شوکت صدیقی نے کہا کہ میرا دامن صاف ہے اس لئے سپریم جوڈیشل کونسل کو درخواست دی کہ اوپن ٹرائل کریں لہٰذا تمام وکلاء کو دعوت دیتا ہوں کہ آکردیکھیں مجھ پرکرپشن کے الزام میں کتنی صداقت ہے؟ اگر کرپشن نظرآئے تو بارمجھ سے استعفی کا مطالبہ کرے تو میں مستعفیٰ ہوجاؤں گا۔
انہوں نے کہا کہ آج آزاد میڈیا بھی اپنی آزادی کھو کر گھٹنے ٹیک چکا ہے، موجودہ ملکی حالات کی 50 فیصد ذمہ داری عدلیہ اورباقی 50 فیصد دیگراداروں پرعائد ہوتی ہے۔
جسٹس شوکت عزیز کا کہنا تھاکہ ابھی تک قانون کے طلبا کو نہیں معلوم کہ جسٹس منیر نے کیا کردارادا کیا تھا؟ جسٹس منیر کا کردار ہر کچھ عرصے بعد سامنے آتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وکلاء جرائم میں کمی کا سبب بنیں، سہولت کار نہ بنیں کیوں کہ ترقی کے لئے کوئی شارٹ کٹ نہیں۔