سندھ ہائی کورٹ میں لاپتہ نوجوان کی والدہ کا اقدام خودکشی

کراچی:سندھ ہائی کورٹ میں لاپتہ نوجوان کی خاتون نے کمرہ عدالت میں پٹرول چھڑک کر خود کو آگ لگانے کی کوشش کی اور اپنی زندگی کا خاتمہ کرنا چاہا لیکن عدالت کی سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں نے فوری طور پر خاتون کو پکڑلیا اور ان سے پٹرول کی بوتل چھین لی۔
سندھ ہائیکورٹ میں 20 سے زائد لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ جسٹس نعمت اللہ پھلپھٹو ابھی سماعت کر ہی رہے تھے کہ 6 سال سے لاپتہ نوجوان کی بوڑھی والدہ نے عدالت میں دہائیاں دیتے ہوئے چیخ و پکار شروع کردی۔
بزرگ خاتون نے کمرہ عدالت میں پٹرول چھڑک کر خود کو آگ لگانے کی کوشش کی اور اپنی زندگی کا خاتمہ کرنا چاہا لیکن عدالت کی سیکیورٹی پر مامور اہلکاروں نے فوری طور پر خاتون کو پکڑلیا اور ان سے پٹرول کی بوتل چھین لی۔
خاتون نے روتے ہوئے کہ ان کا بیٹا محمد فیصل 2012 سے لاپتہ ہے، اسے بہت سے لوگوں کے سامنے گرفتار کیا گیا اور حراست میں لینے والے افراد کو بھی لوگوں نے دیکھا، بیٹے کی بازیابی کے لیے لوگ فون کرتے رہے لیکن تاحال اسے رہا نہیں کیا گیا ہے۔ عالت عالیہ نے شہریوں کی عدم بازیابی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی سندھ پولیس کو معاملے کی خود تحقیقات کرنے کا حکم دیا۔
جسٹس نعمت اللہ پھلپھٹو نے کہا کہ پولیس افسران کو تحقیقات کا علم ہی نہیں، ہر سماعت پر روایتی رپورٹ پیش کردی جاتی ہے، اعلیٰ پولیس افسران لاپتہ افراد کے معاملے میں خود دلچسپی لیں۔ عدالت نے منیر علی، رفیق، اویس، محمد فیصل اور دیگر شہریوں کو بازیاب کراکر رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 5 ستمبر تک ملتوی کردی۔