اسلام آباد: سابق وزیراعظم نواز شریف نے العزیزیہ ریفرنس میں بطور ملزم اپنا بیان قلمبند کرایا اور احتساب عدالت کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے تحریری جواب جمع کرادیے۔
احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی سربراہی میں العزیزیہ ریفرنس کی سماعت جاری ہے، نواز شریف بیان ریکارڈ کرانے روسٹرم پر آئے تو جج ارشد ملک نے پوچھا کہ کیا آپ نے استغاثہ کے شواہد کو دیکھ، سن اور سمجھ لیا ہے جس پر نواز شریف نے کہا کہ جی میں نے شواہد دیکھ لے ہیں۔
نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ تین بار ملک کا وزیر اعظم رہا، پرویز مشرف نے 12 اکتوبر 1999 کو مارشل لاء لگایا، مارشل لاء کے دوران کوئی عوامی عہدہ نہیں رکھتا تھا، 12 اکتوبر 1999 سے مئی 2013 تک کسی عوامی عہدے پر نہیں رہا۔
نواز شریف نے کہا کہ یہ تفتیشی کی رائے تھی کہ میں شریف خاندان کا سب سے با اثرشخص تھا، میرے والد میاں شریف آخری سانس تک خاندان کے سب سے با اثر شخص تھے۔ انہوں نے کہا ٹیکس ریٹرنز، ویلتھ اسٹیمٹمنٹس اور ویلتھ ٹیکس ریٹرن میں نے ہی جمع کروائے تھے، 2001 سے 2008 تک میں جلا وطن تھا جب کہ حسین نواز کے جمع کروائے گئے ٹیکس سے متعلق جواب دینے کامجاز نہیں تاہم میں نے اپنے اِنکم ٹیکس ریٹرن میں تمام اثاثے اور ذرائع آمدن ظاہر کیے۔
بیان ریکارڈ کرانے کے دوران معاون وکیل نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب نشست پر بیٹھ جائیں، ہم جواب تحریر کرا دیتے ہیں جس پر جج ارشد ملک نے کہا کہ اگر جواب یو ایس بی میں ہے تو جمع کرا دیں، جج ارشد ملک نے نواز شریف سے جوابات کی کاپی لے لی اور کہا کہ کوئی بات سمجھ نہ آئی تو میں پوچھ لوں گا۔
نواز شریف نے 45 سوالات کے جواب ریکارڈ کروائے، جج ارشد ملک نے کہا کہ بیان پر نواز شریف کے دستخط لینے ہیں، سپریم کورٹ کو بھی بیان بھجوائیں گے کہ یہاں تک بیان ریکارڈ ہو چکا ہے، جو جواب تسلی بخش نہ ہوئے وہ دوبارہ لکھوانے پڑیں گے۔
اس موقع پر نواز شریف نے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ 5 سوالات کے جوابات خواجہ حارث سے مشاورت کے بعد دوں گا لہذا وقت دیا جائے، کچھ سوالات پیچیدہ ہیں، ریکارڈ دیکھنا پڑے گا۔