وزیر اعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں سپریم کورٹ کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سی نکالنے کی منظوری دی گئی۔
اجلاس میں وفاقی وزیرقانون فروغ نسیم نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے حوالے سے شرکا کو قانونی نکات پریفنگ دی جس کے بعد کابینہ نے دونوں کے نام ای سی ایل سے نکالنے کی منظوری دیدی۔
ذرائع کے مطابق گوشوارے جمع نہ کرانے پر رکنیت معطل ہونے پروفاقی وزیراطلاعات فواد چوہدری،علی امین گنڈا پور اورعلی زیدی کو کابینہ اجلاس میں شرکت سے روک دیا گیا۔
وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے صحافیوں کو بتایا کہ عدالتی حکم کے مطابق احتساب بیورو وزیراعلیٰ سندھ اور پی پی پی کے چیئرمین کے نام ای سی ایل پر ڈالنے کے لیے سفارش کر سکتی ہے، اگر ایسا ہوا تو ای سی ایل پر نام ڈال دیا جائےگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں جے آئی ٹی کے لیے ہدایت موجود ہے کہ وہ قومی احتساب بیورو (نیب) کو مسلسل معاونت فراہم کرے اور نیب عدالت عظمیٰ کے حکامات کا انتظار کیے بغیر ہی ریفرنس دائر کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ ریفرنس اسلام آباد اورراولپنڈی احتساب عدالتوں میں دائر کیا جائےگا۔
شہزاد اکبر نے مزید بتایا کہ ’نئے چیف جسٹس مقدمے کی نگرانی کے لیے مانیٹرنگ جج مقرر کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم عمران خان نے وزارت خارجہ کو ہدایت دی کہ وہ گذشتہ 10برس کے دوران کیسز کی پیروی کے لئے فیس کی ادائیگی، ان کیسز کا اسٹیٹس سمیت بیرون ممالک میں لابنگ کے لئے کتنے فنڈز جاری ہوئے، تمام تر معلوت اور اعداد و شمار آئندہ اجلاس میں پیش کیے جائیں۔
وزیراعظم کے خصوصی مشیر برائے میڈیا افتخار درانی نے بتایا کہ کابینہ کے اجلاس میں کیپیٹل ایڈمنسٹریشن اینڈ ڈیولپمنٹ ڈویژن کے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی منصوبوں کے لیے بجٹ کی منظوری وزرات داخلہ کے سپرد کرنے کا فیصلہ ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ وزارت برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی کی 20 کشیاں نیلامی کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اس حوالے سے مزید بتایا گیا کہ ’کابینہ نے ریٹارئرڈ میجر جنرل عامر عظیم کو پی ٹی اے کا چیئرمین اور 21 گریڈ کے افسر علی رضا کو بینظر بھٹو انکم سپورٹ پروگرام کا سیکریٹری مقرر کردیا گیا‘۔
کابینہ نے نیب کے لیے 75کروڑ روپے کی اضافی گرانڈ دینے کی بھی منظوری دی۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے 70 سے زائد رکن قومی اسمبلی کی جانب سے اثاثوں کی تفیصلات جمع نہ کرانے پر ان کی رکنیت معطل کردی تھی۔
بعدازاں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے افتخار درانی نے تاثر کو مسترد کیا کہ حکومت 23 جنوری 2019 کو منی بجٹ پیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
انہوں نے واضح طور پر میڈیا رپورٹس کو مسترد کیا کہ حکومت 23 جنوری سے سیلز ٹیکس میں اضافہ کررہی ہے۔
وزیراعظم کے خصوصی مشیر برائے احتساب مرزا شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس میں بتایا کہ ’دونوں رہنماؤں کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا فیصلہ کیا لیکن جعلی اکاؤنٹس کیس سے متعلق مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ سے مذکورہ دونوں افراد کے نام نہیں نکالے گئے‘۔