سپریم کورٹ نے آٹھ سال بعد عمر قید کے تین ملزمان کو بری کر دیا، چیف جسٹس آصف کھوسہ نےفیصلہ سناتے ہوئے اہم ریمارکس دئیے کہ اگرگواہ ڈرتے ہیں تو انصاف نہ مانگیں ، فرمان الہی ہے سچی شہادت کے لیے سامنے آجائیں،اپنے ماں باپ یا عزیزوں کے خلاف بھی شہادت دینے کے لیےگواہ بنو۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نےفیصل آباد میں اغوا برائے تاوان سے متعلق کیس کی سماعت کی،عدالت نے 8 سال بعد اغوا برائے تاوان میں تین مجرموں کی سزائیں ختم کر دیں۔عدالت نے نصیر احمد، اسد علی اور مظہر حسین کی عمر قید کی سزائیں ختم کرتے ہوئے رہائی کا حکم دے دیا۔
یاد رہے کہ تین مجرمان پر محمد صدیق کو اغوا کرنے اور تاوان لینے کا الزام تھا۔ٹرائل کورٹ نے نصیر احمد، مظہر حسین کو عمر قید جبکہ اسد علی کو سزائے موت سنائی تھی،لاہور ہائیکورٹ نے اسد علی کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کر دیا،دیگر دونوں ملزمان کی اپیلیں مسترد کر دی تھیں۔محمد صدیق کو مبینہ طور پرچودہ جنوری 2011 کو فیصل آباد سے اغوا کیا گیا تھا۔
کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اہم ریمارکس دیے کہ اگر گواہ ڈرتے ہیں تو انصاف نا مانگیں،اللّٰہ کا واضح حکم ہے کہ سچی شہادت کے لیے سامنے آ جاؤ،اپنے خلاف، ماں باپ یا عزیزوں کے خلاف بھی شہادت دینے کے لیے گواہ بن جاؤ۔
چیف جسٹس نے کہا کہ مغوی کی برآمدگی پولیس کے ذریعے نہیں ہوئی،مغوی چھ ماہ بعد بھی شامل تفتیش نہیں ہوا،مغوی نے چھ ماہ تک شامل تفتیش نا ہونے کا کوئی عذر پیش نہیں کیا۔
عدالت نے ملزمان کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے سزائیں ختم کرتے ہوئے بری کر دیا۔