مفتی محمد تقی عثمانی کا شمار عالم اسلام کی اہم ترین علمی شخصیات میں ہوتا ہے،انہیں پورے عالم اسلام میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ، وہ پاکستان میں بھی تمام مکاتب فکر کے اندر یکساں مقبول ہیں۔
ملک میں نفاذ اسلام کی اہم تحریکوں کی ہمیشہ سرپرستی کرنے والے مفتی تقی عثمانی نے فرقہ واریت اور مسلکی عصبیت کے فروغ کی حوصلہ شکنی کی اور اس کے سدباب کے لیے ہر حکومت کو مفید مشورے بھی دیے ۔
مفتی تقی عثمانی27اکتوبر 1943 کو بھارت کی ریاست اترپردیش کے ضلع سہارنپور کے مشہور قصبہ دیوبند میں پیدا ہونے والے مفتی محمد تقی عثمانی تحریک پاکستان کے ممتاز رکن مولانا محمد شفیع عثمانیؒ کے فرزند ارجمند ہیں۔
شیخ الحدیث حضرت مولانا یوسف بنوریؒ کی ہدایت پر 1974 کی قادیانی مخالف تحریک میں مفتی تقی عثمانی نے اپنا اہم کردار ادا کیا۔
قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی اس تحریک میں مفتی تقی عثمانی نے مولانا سمیع الحق کے ساتھ مل کر ایک دستاویز بھی تیار کی تھی جو قادیانیوں کے خلاف پارلیمان میں پیش کی گئی۔
مفتی تقی عثمانی 1980ء سے 1982ء تک وفاقی شرعی عدالت اور 1982ء سے 2002ء تک عدالت عظمی پاکستان کے شریعت ایپلیٹ بینچ کے جج رہے، ایک بڑے عرصے تک اس منصب پر فائز رہنے کے بعد جنرل مشرف کی حکومت میں انہیں اس عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔
شریعت کورٹ میں اُنہوں نے ایک فیصلے میں بینکوں میں سود کو اسلامی نظام کے خلاف قرار دیا تھا۔ آپ اسلامی فقہ اکیڈمی، جدہ کے نائب صدر اور جامعہ دارلعلوم، کراچی کے نائب مہتمم بھی ہیں۔
مولانا محمد تقی عثمانی کا پاکستان میں اسلامی بینکنگ کا نظام متعارف کرانے میں بھی بنیادی کردار رہا ہے، اس کے علاوہ آپ 8 اسلامی بینکوں میں بحیثت مشیر کام کر رہے ہیں جبکہ وہ اسلامی مالیاتی اداروں کے اکاونٹینگ اور آڈیٹینگ آرگنائزیشن کے چیئرمین بھی ہیں۔
شیخ الالسلام مولانا محمد تقی عثمانی 44 سے زائد کتابوں کے مصنف اور ’’البلاغ‘‘ نامی جریدے کے مدیر بھی ہیں جو اردو اور انگریزی زبانوں میں شائع ہوتا رہا ہے۔
مفتی تقی عثمانی کی تصنیفات میں آسان ترجمہ قرآن (توضیح القرآن) مع تشریحات مکمل تین جلدیں،آسان نیکیاں،اندلس میں چند روز شامل ہیں۔
واضح رہے کہ افغان طالبان کے مرحوم امیر ملا محمد عمر سے مذاکرات کے لیے جب حکومت پاکستان نے علما کا وفد اسلام آباد بھیجا تو اس میں مولانا مفتی تقی عثمانی کے بھائی مولانا محمد رفیع عثمانی شامل تھے۔
لال مسجد آپریشن سے قبل جب حکومت نے لال مسجد انتظامیہ سے مذاکرات کے لیے وفد بھیجا تو ان میں مفتی تقی عثمانی بھی شامل تھے۔