فائل فوٹو
فائل فوٹو

نجی اسکولوں میں فیسوں میں اضافے سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ

سپریم کورٹ آف پاکستان نے کو نجی اسکولوں میں فیسوں میں اضافے سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا ہے جبکہ ججز نے ریمارکس دیے ہیں کہ کسی کو کھلی چھوٹ نہیں دے سکتے،جمہوری معاشروں میں قیمتیں مقرر کرنے کا اختیار صرف قانون سازوں کو حاصل ہے،دیکھنا ہو گا عدالت نے کہاں حد لگانی ہے؟فیسیں مقرر کرنا عدالتوں کا کام نہیں۔

نجی سکولوں میں فیسوں میں اضافے سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے کی ۔ وکیل نجی سکولز نے کہاکہ 2002 میں بھارتی سپریم کورٹ کے 11 رکنی بینچ نے اس سے مماثل کیس کا فیصلہ سنایا۔

انہوں نے کہاکہ بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ نجی اسکول مناسب منافع کما سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ کیا ان بھارتی مقدمات میں حکومت کی جانب سے فیس اسٹرکچر دیا گیا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ بھارتی مقدمات کو کس پیرائے میں سنا گیا اور کیا ریگولیشن کی گئی ہمیں معلوم نہیں،ان مقدمات کی بنیاد پر ہم کسی غلط نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ بنیادی سوال یہ ہے کہ فیس اضافے میں حد لگانا کیسے بلاجواز ہے۔

وکیل نجی اسکولز نے کہاکہ پنجاب کا قانون ریوینیو سے متعلق مسئلے پر بات ہی نہیں کرتا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ ریگولیشن میں لفظ منافع بخش کا استعمال نہیں ہوا۔ وکیل نجی اسکلولز نے دوران سماعت بلیک لاڈکشنری کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ پنجاب کا قانون منافع پر بات نہیں کرتا ریوینیو پر حد لگاتا ہے،اس حوالے سے پنجاب کا قانون سندھ کے قانون سے بلکل مختلف ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ 5 فیصد سالانہ اضافے کی حد بنیادی حقوق کے خلاف کیسے ہے، نجی اسکول کہتے ہیں 5 فیصد سالانہ اضافے کی حد نہ لگائی جائے۔انہوں نے کہاکہ ٹیکس بچانے کے لیے اسکول اپنے اخراجات زیادہ بتاتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ ٹیکس چوری جرم ہے، ٹیکس بچانے کی مینجمنٹ وکیل کا مشورہ ہوتا ہے، سکول اپنی مرضی کے مطابق نفع کا تناسب رکھ سکتے ہیں، ہمارے سامنے سوال قانونی ہے، سوال یہ ہے کہ کیا 5 فیصد سالانہ فیس میں اضافے پر قدغن لگ سکتی ہے، ٹیوشن فیس کے علاوہ پیسہ کمانے کے لیے دوسرے راستے بھی اختیار کیے جاتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہاکہ ملک کا صدر بننے کے لیے 45 سال کی عمر اہلیت ہے، ملک کے صدر کے لیے اہلیت 44 سال یا 46 کیوں نہیں؟عمر کے تعین میں قانون سازوں کی اپنی بصیرت ہے، فیس میں سالانہ 5 فیصد تک اضافہ کی حد میں قانون سازوں کی بصیرت ہوگی،برطانیہ میں وکلاکی فیس بھی مقرر شدہ ہوتی ہے۔