اسلام آبادہائیکورٹ نے سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روکنے کی وزارت داخلہ کی درخواست پر سیکریٹری وزارت قانون و انصاف کوآدھے گھنٹے میں پیش ہونے کاحکم دیدیا۔عدالت نے کہا کہ یہ بتادیں کہ اب ہم نے کیا کرنا ہے ؟ آپ ہم سے کیا آرڈر چاہتے ہیں ؟آپ کہہ رہے ہیں کہ غداری کیس چلانے کی درخواست اور ٹرائل کا فورم غلط تھا،آپ کی غلطیاں ہم ہی ٹھیک کریں۔
عدالت نے کہا کہ آپ یوں کہیں کہ پرویزمشرف کیخلاف کیس نہیں چلانا چاہتے،کیا آج وفاقی حکومت پرویزمشرف کے خلاف ٹرائل نہیں کرنا چاہتی ؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کل فیصلہ سنانے سے روکا جائے۔
عدالت نے کہا کہ کیا خصوصی عدالت صرف اس لیے فیصلہ نہ سنائے کہ آپ سے غلطی ہوئی تھی ؟ہمارے سامنے ایسے شخص کا کیس ہے جس نے عدلیہ پر وار کیا تھا، اور اشتہاری بھی ہوچکا ہو ہے، پیچیدگی یہ ہے کہ اس سب کے باوجود فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کرنے ہیں۔
اسلام آبادہائیکورٹ میں سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کو فیصلہ سنانے سے روکنے کی وزارت داخلہ کی درخواست پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے سماعت کی،وزارت داخلہ کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی عدالت میں پیش ہوئے۔
عدالت نے استفسار کیاکہ خصوصی عدالت کا نوٹیفکیشن لے کر آئے ہیں ؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 20 نومبر2013 کا نوٹیفکیشن ہے ،جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ سیکریٹری وزارت قانون و انصاف کو بلایاتھا وہ کیوں نہیں آئے؟چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سیکریٹری وزارت قانون و انصاف کوآدھے گھنٹے میں پیش ہونے کاحکم دیدیا۔
جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اصل دستاویزات کے ساتھ پیش ہوں ،کوئی کاپی نہیں اصل دستاویزات کے ساتھ پیش ہوں ،چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو بتائیں قانون کیا ہے ؟عدالت کا ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو پیراگراف5 کو دوبارہ پڑھنے کا حکم دیدیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہاکہ ہمارے پاس دو قانون ہیں،عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو قانون پڑھنے کا حکم دیدیا،چیف جسٹس نے کہا کہ دوسراایکٹ کونسا ہے ؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ دوسراایکٹ کریمنل لا1976 ہے ۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ عدالت کو آفیشل گزٹ کا نوٹیفکیشن دکھائیں،جسٹس محسن اخترکیانی نے کہاکہ 2013 کے بعد پہلی تبدیلی کب ہوئی؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ جس جس تاریخ پر جو جو تبدیلی آئی اس کے نوٹیفکیشن موجود ہیں ۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ آپ نے قانون پڑھا ہے ؟کیا نوٹیفکیشن واپس لیا جا سکتا ہے ؟،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایسی تشریخ نہیں جس تک شکایت رہتی ہے واپس نہیں لیتے۔عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل پر برہمی کااظہارکیا۔
چیف جسٹس اسلام آبادہائیکورٹ نے کہا کہ اگرآپ کو کسی چیز کانہیں پتہ تو اگلے ہفتے سماعت رکھتے ہیں ؟خصوصی عدالت کا ٹربیونل کب بنا؟ان کا نوٹیفکیشن کب ہوا؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نومبر2019 کو ٹربیونل کا نوٹیفکیشن جاری ہوا،4 اکتوبر2019 کوٹربیونل کا نوٹیفکیشن جاری ہوا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ اکتوبر1999 کے اقدامات کو بھی غیر آئینی قرار دیاگیا،آپ اس حوالے سے علیحدہ شکایت داخل کیوں نہیں کرتے؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا اس حوالے سے ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا۔
چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا سمجھنے کی کوشش کریں یہ غیر معمولی حالات ہیں۔3 نومبر کو ایمرجنسی کاٹارگٹ عدلیہ تھی۔جسٹس عامر فاروق نے کہاکہ آپ کہہ رہے ہیں ٹرائل کیلیے خصوصی عدالت کی تشکیل درست نہیں تھی آپ دلائل سے بتا رہے ہیں ایسا نہیں تو پھر آپ کی درخواست ہی درست نہیں۔
جسٹس محسن اخترکیانی نے کہاکہ جائیں جاکر بیان دیں ہم مشرف کیخلاف درخواست واپس لے رہے ہیں ،یہاں کیو ں آئے ہیں ؟آپ نے تب غلطی کی تھی تو اب اسے ٹھیک کیسے کرائیں گے؟ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ شکایات سیکریٹری داخلہ کی جانب سے داخل کرائی گئی تھی۔
جسٹس محسن اخترکیانی نے استفسار کیا آپ آج یہ کیس وفاقی کابینہ کی اجازت سے یہاں لے کر آئے ہیں ؟آپ اپنی غلطی تسلیم کررہے ہیں تو یہی بات متعلقہ ٹربیونل کو جا کر بتائیں ،جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ یہ بتا دیں اب ہم نے کیاکرنا ہے؟آپ ہم سے کیا آرڈر چاہتے ہیں ۔
چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں غداری کیس چلانے کی درخواست غلط تھی ٹرائل کا فورم بھی،آپ کی غلطیاں ہم ہی ٹھیک کریں ۔جسٹس محسن اخترکیانی نے کہاکہ آپ یوں کہیں پرویز مشرف کے خلاف کیس نہیں چلانا چاہتے کیاآج وفاقی حکومت پرویز مشرف کے خلاف ٹرائل نہیں کرناچاہتی؟چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار درخواست دائر کرکے کہتے ہیں میں نے جو کیا کیاوہ غلط کیا۔