ریلوے خسارہ کیس میں چیف جسٹس پاکستان وزیر ریلوے کی سرزنش کردی۔
چیف جسٹس گلزاراحمد نے کہا کہ منسٹر صاحب بتائیں آپ کیا کررہے ہیں،آپ کا ساراکچاچٹھاہمارے سامنے ہے،ایسے ریلوے کی ہمیں ضرورت نہیں بند کردیں،اس انتظامیہ سے ریلوے نہیں چلنے والی ۔
چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے ریلوے خسارہ کیس کی سماعت کی۔ وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس گلزاراحمد نے کہاکہ شیخ صاحب آپ کا ادارہ سب سے نااہل ہے اس کو درست کریں ،یہ بابوبیٹھ کر صرف کرسیاں گرم کرتے ہیں ،پروفیشنل لوگ لے کرآئیں بابو ٹرین نہیں چلا سکتے ،چیف جسٹس گلزاراحمد نے کہا کہ آپ سینئر وزیر ہیں آپ کی وزارت سب سے ٹھیک چلنی چاہیے ،ٹرین میں بم پھٹ جائے افسروں اوربابوکو کچھ نہیں ہوتا،دنیا میں ہمارے انجینئرز ٹرینیں چلا رہے ہیں۔
عدالت نے کراچی میں سرکلر ریلوے کی زمین دو ہفتوں میں خالی کرانے کا حکم دیدیا،عدالت نے کہاکہ زمین جن لوگوں سے واگزارکرائی جائے ان کی آبادکاری بھی کی جائے۔
عدالت نے سرکلر ریلوے آپریشن کیلیے حکومت سندھ کو تعاون کی ہدایت کردی،سپریم کورٹ نے ریلوے خسارہ کیس میں ریلوے کو خسارے سے نکال کر منافع بخش بنانے کا بزنس پلان طلب کرلیا،عدالت نے کہا کہ بزنس پلان سے انحراف پر توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔
چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ جیسے ریلوے چلائی جا رہی ہے ہمیں ایسی ریلوے کی ضرورت نہیں، میرے خیال سے ریلوے کو آپ بند ہی کردیں، آپ کا سارا کٹا چٹھا تو ہمارے سامنے ہے، وزیر صاحب بتائیں کیا پیش رفت ہے، ریلوے جلنے کے واقعہ کے بعد تو آپ کو استعفی دے دینا چاہیے تھا، بتا دیں 70 آدمیوں کے مرنے کا حساب آپ سے کیوں نہ لیا جائے،70لوگ جل گئے بتائیں کیا کارروائی ہوئی؟۔
شیخ رشید نے جواب دیا کہ 19 لوگوں کے خلاف کارروائی کی ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ گیٹ کیپر اور ڈرائیوز کو نکالا بڑوں کو کیوں نہیں؟۔ شیخ رشید نے جواب دیا کہ بڑوں کے خلاف بھی کارروائی ہوگی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سب سے بڑے تو آپ خود ہیں۔
شیخ رشید نے عدالت سے کہا کہ ریلوے کے مسائل کا واحد حل ایم ایل ون منصوبہ ہے جو چودہ سال پرانا منصوبہ ہے لیکن اس پرعمل نہیں ہوا، حکومت ریلوے ملازمین کی پنشن کی ذمے داری لے لے تو5 سال میں خسارہ ختم ہو جائے گا،عدالت مہلت دے معیار پر پورا نہ اترا تو استعفی دے دوں گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے پرانے رونے نہ روئیں، ایم ایل ون منصوبہ کیا جادوگری ہے، ریلوے میں لوٹ مار مچی ہوئی ہے، اس کے پاس نہ سگنل ہے نہ ٹریک اورنہ بوگیاں، ہرافسر پیسے لے کر بھرتی کررہا ہے، ریلوے جا کدھر رہی ہے، کراچی میں کالا پل دیکھیں ،کیماڑی جائیں دیکھیں کیا حال ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی سرکلر ریلوے کی 38 کنال زمین عدالتی حکم پرخالی ہوئی، ریلوے افسران جس کو چاہتے ہیں زمین دیتے ہیں، لوگ آپ کی باتیں سنتے ہیں لیکن آپ کا ادارہ سب سے نااہل ہے، شیخ صاحب سینئر وزیر کے طور پرآپ کی کارکردگی سب سے اچھی ہونا چاہیے تھی، ریلوے کو بابو نہیں چلا سکتے، پیشہ ور انتظامیہ کی ضرورت ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ریلوے ایم ایل ون کے لیے پیسے کہاں سے لائے گی،خسارہ ہر سال ہو رہا ہے، ٹرینیں وقت پر نہیں پہنچتیں ،انجن راستے میں خراب ہو جاتے ہیں۔
سپریم کورٹ نے شیخ رشید سے دو ہفتوں میں ریلوے کو منافع بخش ادارہ بنانے کیلیے جامع پلان طلب کرلیا۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ اگر شیخ رشید نے عدالت کو دیے گئے اپنے پلان پر عمل نہ کیا تو ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔
سپریم کورٹ نے ایم ایل ون کی منظوری نہ ہونے پر وفاقی وزیر اسد عمر اور سیکرٹری منصوبہ بندی کو بھی آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا حکم دیا اور سماعت بارہ فروری تک ملتوی کردی۔
واضح رہے کہ رحیم یار خان میں 31 اکتوبر 2019 کو تیز گام ایکسپریس میں آتشزدگی کے باعث 74 مسافر جاں بحق جب کہ 90 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔