اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ وفاقی دارالحکومت میں آئی بی، ایف آئی اے سمیت ہر ادارہ ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں ملوث ہوچکا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے نیول فارمز اور نیوی سیلنگ کلب کے خلاف کیسز پر سماعت کی۔ وکیل سی ڈی اے نے بتایا کہ چیئرمین سی ڈی اے نے اپنا بیان حلفی جمع کروا دیا ہے کہ قانون کے مطابق عمل کرینگے۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ چیئرمین سی ڈی اے ذمہ دار ہیں ان کو انکا کام کرنے دیں، اگر کچھ غلط ہوتا ہے تو چیئرمین سی ڈی اے اور بورڈ ممبر ذمہ دار ہوگا، سی ڈی اے کو ہر کیس میں کہا جاتا ہے کہ قانون کے مطابق چلیں، سی ڈی اے قوانین تو ماسٹر پلان کے مطابق تھے اور ماسٹر پلان تو انہوں نے خود تباہ کر دیا اور خود کو کمزور کیا، اسلام آباد میں قانون کی بالا دستی نہیں ہے، قانون صرف کمزور کے لئے ہے، اگر اس چودہ سو سکوائر میل میں قانون کی بالادستی نہیں تو پھر پورے ملک میں بھی نہیں ہو گی۔
وکیل بابر ستار نے کہا کہ نیول چیف کو واٹر اسپورٹس کا پیٹرن ان چیف بنانے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں، جھیل کنارے کسی قسم کی تعمیرات خلاف قانون ہیں، پاکستان نیوی کوئی ہاؤسنگ سوسائٹی نہیں چلا سکتی۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ سب کر رہے ہیں آئی بی اور ایف آئی اے بھی ہاؤسنگ سوسائٹیز کا کام کر رہے ہیں، اس شہر میں ہر ادارہ ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں ملوث ہو چکا ہے۔ وکیل بابر ستار نے جواب دیا کہ تمام سوسائٹیز غیرقانونی قرار دی جا چکی ہیں۔
وکیل پاکستان نیوی نے بتایا کہ نیول سیلنگ کلب کا این او سی ڈائریکٹر جنرل ویلفیئر کے نام جاری کیا گیا۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا وہ سول ادارہ ہے یا پاکستان نیول ہیڈکوارٹرز کا حصہ ہے، جب وہ نیول ہیڈکوارٹرز کا حصہ ہے تو پھر پاکستان نیوی ہے، جب این او سی کیلئے درخواست دی گئی تو کیا پاکستان نیوی نے وزارت دفاع سے اجازت لی تھی، جہاں پر قانون کی حکمرانی نہیں وہ سوسائٹیاں تباہی ہو جاتی ہیں اور سب سے زیادہ غربت ہوتی ہے، اگر عدالت قرار دے کہ نیول چیف نے سی ڈی اے کے نوٹس کے بعد نیول سیلنگ کلب کا افتتاح خلاف قانون کیا تو کیا اچھا لگے گا، ہر ایک کو قانون کی بالا دستی تسلیم کرنی ہو گی، اسی لئے کہہ رہے ہیں کہ ایسی چیزیں نہیں کرنی چاہئیں، اب یہ بتائیں کہ اب کیا عدالت ایک یونیفارم والے بندے کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرے، اگر وردی والے بندے کو میں سزا سنا دوں تو وہ اچھی بات تو نہیں، اگر ایف آئی آر درج ہو جائے تو ایک انسپکٹر یا سب انسپکٹر جا کر ان سے تفتیش کریگا۔
وکیل پاکستان نیول فارمرز نے کہا کہ عدالت پہلے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ کرے، میرا اعتراض ہے کہ یہ درخواست قابل سماعت ہی نہیں۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ درخواست گزار چاہتا ہے کہ ادارہ جس کی قوم میں بے پناہ عزت ہے اسکی عزت ختم نہ ہو، غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے لیکن اس غلطی کو درست کر لیا جانا چاہیے، کیا کہ بحریہ فاؤنڈیشن پرائیویٹ ادارہ نہیں ہے، کیا بحریہ فاؤنڈیشن بھی پاکستان نیوی چلا رہی ہے۔
وکیل نے جواب دیا کہ بحریہ فاؤنڈیشن چیرٹی کیلئے بنایا گیا ادارہ ہے جو پاکستان نیوی نے بنایا، سی ڈی اے رولز کے مطابق اسکیم جب تک مکمل نہیں ہوتی تو سپانسر کے زیر اختیار ہوتی ہے، جب نیول فارمز کی اسکیم مکمل ہو جائے گی تو وہاں کے رہائشی یا سی ڈی اے کے زیر اختیار آ جائے گی، وزارت دفاع نے ڈائریکٹر جنرل ویلفیئر اینڈ ری ہیبلیٹیشن کا ادارہ بنایا۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ نیول ہیڈکوارٹرز میں ایک ادارہ ہے وہ پرائیویٹ فنڈز کو بھی ڈیل کر رہا ہے، اب آپ بات کو مزید پیچیدہ کر رہے ہیں، نیول فارمز کی بجلی استعمال ہو رہی ہے وہاں پر دیگر اخراجات بھی آ رہے ہیں، اس ہائیکورٹ کے فنڈز کے ایک پیسے کے بھی ہم ذمہ دار ہیں۔
وکیل ہاؤسنگ اسکیم قمر افضل نے کہا کہ عدالت سارے معاملے کو کسی دوسری طرف لے جا رہی ہے، پاکستان نیوی نے وفاقی کابینہ سے بحریہ فاؤنڈیشن ادارہ بنانے کی اجازت لی، بحریہ فاؤنڈیشن پاکستان نیوی کی ویلفیئر کیلئے بنایا گیا ادارہ ہے۔
عدالت نے پوچھا کہ ویلفیئر میں کیسے آتا ہے، ویلفیئر میں یہ پرائیویٹ سوسائٹی کیسے بنا سکتے ہیں یہ بتا دیں، یہ جو کچھ آپ نے پڑھا وہ تو آپ کے بالکل خلاف جا رہا ہے، اس میں لکھا ہے کہ جو سیکٹر دیا ہوا ہے اس کے اندر بیٹھ کر ان کی میسنگ، سپورٹس کا انتظام کرنا ہے، ابھی تک آپ کوئی ایسی چیز نہیں بتا سکے کہ پاکستان نیوی کوئی پرائیویٹ سوسائٹی بنا سکے، اب ایک نئی چیز سامنے آئی ہے کہ یہ سب چیزیں نیول ہیڈکوارٹرز سے ہو رہی ہیں۔
وکیل نے جواب دیا کہ اس عدالت کی آبزرویشنز ادارے کیلئے مسائل پیدا کر رہی ہیں، اس عدالت کی سماعت سے اثر پڑتا ہے یہ بہت حساس معاملہ ہے۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں کہ اس عدالت کو بند کر دیں، جو کوئی قانون توڑتا ہے وہ خود اپنے لئے مسائل پیدا کر رہا ہے، اس عدالت نے پبلک انٹرسٹ کو محفوظ بنانا ہے، آپ یہ چاہتے ہیں کہ نیوی یہ کاروبار بھی کرے اور نیول چیف کو استثنی دے دیا جائے، سب سے حساس معاملہ قانون کی خلاف ورزی ہے، اگر یہ حساس ہے تو آپ کا کلائنٹ اس کو حساس بنا رہا ہے بار بار یہ بات نہ کہیں، کیا اس زمین کی کبھی الاٹمنٹ ہوئی ہے۔
وکیل نیول چیف نے کہا کہ نیول فارمز کی الاٹمنٹ کا کوئی لیٹر تو ہمارے پاس موجود نہیں، نیول چیف اس وقت عہدے پر نہیں تھے جب نیول سیلنگ کلب کیلئے وزیراعظم نے اجازت دی، نیوی سیلنگ کی پوری زمین میں صرف 14 فیصد ایریا پر تعمیرات ہوئی ہیں۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے پاکستان نیول فارمز کے وکیل کو تیاری کیلئے مزید وقت دیتے ہوئے وکیل نیول فارمز سے کہا کہ جب پاکستان نیوی پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹی بنائے گی تو نیول چیف سول کورٹ کے سامنے جواب دہ ہونگے، آپ یہ چاہتے ہیں کہ نیوی ہاؤسنگ سوسائٹی بھی بنائے اور نیول چیف جواب دہ بھی نہ ہو، آئندہ سماعت پر عدالت کو قانون کے حوالوں سےمطمئن کریں کہ کیسے پاکستان نیوی ہاؤسنگ سوسائٹی بنا سکتی ہے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 17 اکتوبر تک ملتوی کردی۔