اظہارافسوس کرنے والوں کے اکاؤنٹ 30 روز کیلیے بلاک کردیے۔فائل فوٹو
اظہارافسوس کرنے والوں کے اکاؤنٹ 30 روز کیلیے بلاک کردیے۔فائل فوٹو

’’خاموش ہوگیا ہے چمن بولتا ہوا‘‘

پاکستان عاشقان رسولﷺ کے دلوں پر حکمرانی کرنے والی عہد ساز شخصیت سے محروم ہوگیا۔ تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی انتقال کرگئے۔
شیخ زاید ہسپتال حکام کے مطابق علامہ خادم حسین رضوی ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی انتقال کر چکے تھے۔ مرحوم کے اہل خانہ کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ وہ گزشتہ کچھ عرصے سے علیل تھے۔ جمعرات کے روز ان کی طبیعت مزید بگڑ گئی، جس کے بعد ان کا انتقال ہوگیا۔

علامہ خادم حسین رضوی کی میت
علامہ خادم حسین رضوی کی میت

علامہ خادم حسین رضوی کے انتقال کے حوالے سے شیخ زید ہسپتال لاہور کے حکام کی جانب سے بیان جاری کیا گیا ہے۔ ہسپتال حکام کا بتانا ہے کہ علامہ کو جمعرات کی شب پونے 9 بجے ہسپتال لایا گیا، تاہم وہ پہلے ہی انتقال کر چکے تھے۔ مرحوم گزشتہ کئی روز سے بخار میں مبتلا تھے۔

علامہ خادم رضوی کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ کا عکس
علامہ خادم رضوی کے ڈیتھ سرٹیفکیٹ کا عکس

اہل خانہ نے علامہ خادم رضوی کی بیماریوں کی ہسٹری کے حوالے سے تفصیلات فراہم نہیں کیں۔انتقال کی خبر کی تصدیق کرتے ہوئے رہنما تحریک لبیک عنایت الحق قادری کا کہنا ہے کہ لاہور میں خادم رضوی کا انتقال ہو چکا۔ خادم حسین رضوی گزشتہ روز ہی اسلام آباد سے واپس لاہور آئے تھے، اسلام آباد میں بھی ان کی طبیعت خراب تھی۔
خادم حسین رضوی 3 ربیع الاول، 1386ھ بمطابق 22 جون، 1966ء کو ’’نکہ توت‘‘ ضلع اٹک میں حاجی لعل خان کے ہاں پیدا ہوئے۔ بریلوی مکتب فکر کے عالم دین اور مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان کے بانی تھے۔ خادم حسین رضوی ٹریفک کے ایک حادثے میں معذور ہو گئے تھے اور سہارے کے بغیر نہیں چل سکتے ہیں۔
سیاست میں آنے سے قبل خادم حسین لاہور میں محکمہ اوقاف کی مسجد میں خطیب تھے۔ ممتاز قادری کی سزا پر عملددرآمد کے بعد انھوں نے کھل کر حکومت وقت پر تنقید کی، جس کی وجہ سے محکمہ اوقاف نے ان کو فارغ کر دیا۔
خادم حسین رضوی نے ابتدائی تعلیم میں چوتھی کلاس تک اپنے گاؤں نکا کلاں کے اسکول سے حاصل کی۔ اس کے بعد دینی تعلیم کے لیے ضلع جہلم چلے گئے، اس وقت ان کی عمر بمشکل آٹھ سال ہی تھی اور یہ 1974 کی بات ہے۔ جب خادم حسین اکیلے جہلم پہنچے تو اس وقت تحریک ختم نبوت اپنے عروج پر تھی اور اس کی وجہ سے جلسے جلوس اور پکڑ دھکڑ کا عمل چل رہا تھا۔ جہلم میں علامہ صاحب کے گاؤں کے استاد حافظ غلام محمد موجود تھے جنھوں نے انہیں جامعہ غوثیہ اشاعت العلوم عید گاہ لے گئے۔ یہ مدرسہ قاضی غلام محمود کا تھا جو پیر مہر علی شاہ کے مرید خاص تھے۔ وہ خود خطیب و امام تھے اس لیے مدرسہ کے منتظم ان کے بیٹے قاضی حبیب الرحمن تھے۔ مدرسہ میں حفظ قرآن مجید کے لیے استاد قاری غلام یسین تھے جن کا تعلق ضلع گجرات سے تھا اور وہ آنکھوں کی بینائی سے محروم تھے۔ خادم حسین نے قرآن مجید کے ابتدائی بارہ سپارے جامع غوثیہ اشاعت العلوم میں حفظ کیے اور اس سے آگے کے اٹھارہ سپارے مشین محلہ نمبر 1 کے دار العلوم میں حفظ کیے۔ اس کی وجہ کچھ یوں بنی کہ مدرسہ میں موجود نکا کلاں کے ایک طالب علم گل محمد نے کسی بات پر باورچی کو مارا تھا اور باورچی کو اچھی خاصی چوٹیں آئیں۔ اس وجہ سے گل محمد کو مدرسہ سے نکال دیا گیا جس کی وجہ سے نکا کلاں کے استاد حافظ غلام محمد نے اپنے لائے تمام طلبہ جن کی تعداد اکیس تھی نکال کر مشین محلہ نمبر 1 پر واقع دار العلوم میں داخلہ دلا دیا جن میں خادم حسین بھی شامل تھے۔ آپ کو قرآن پاک حفظ کرنے میں چار سال کا عرصہ لگا۔ جب آپ کی عمر بارہ برس ہوئی تو جہلم چلے گئے اور وہاں دو سال قرأت کی تعلیم حاصل کی۔ قرأت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1980ء میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے لاہور چلے گئے۔ وہاں آپ نے شہرہ آفاق دینی درسگاہ جامعہ نظامیہ لاہور میں درس نظامی کی تعلیم حاصل کی۔ لاہور مدرسہ میں آٹھ سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد 1988ء میں فارغ التحصیل ہو گئے تھے۔ قرآن پاک حفظ کرنے کے علاوہ درس نظامی اور احادیث پڑھیں۔
حافظ خادم حسین نے پہلی ملازمت 1993ء میں محکمہ اوقاف پنجاب میں کی۔ اس سلسلے میں آپ داتا دربا لاہور کے نزدیک واقع پیر مکی مسجد میں خطیب تھے۔ جب محکمہ اوقاف کی ملازمت ترک کی تو اس وقت آپ کی تنخواہ بیس ہزار ماہانہ تھی۔ جو اب ختم ہو چکی تھی۔ پھر یتیم خانہ لاہور روڈ کے قریب واقع مسجد رحمت اللعالمین میں خطیب رہے جہاں سے پندرہ ہزار ماہانہ مشاہرہ ملتا تھا۔
روحانی طور پر خادم حسین سلسلہ نقشبندیہ میں خواجہ محمد عبد الواحد لمعروف حاجی پیر صاحب کالا دیو، جہلم سے مرید تھے۔
خادم حسین رضوی دو عشروں سے جامعہ نظامیہ رضویہ میں تدریس کر رہے تھے۔ اس کے علاوہ فدایان ختم نبوت پاکستان اور مجلس علما نظامیہ کے مرکزی امیر رہے۔ دار العلوم انجمن نعمانیہ سمیت کئی مدارس، تنظیمات اور اداروں کے سر پرست و نگران رہے۔
خادم حسین رضوی کی شادی اپنے چچا کی بیٹی سے ہوئی جو آپ کے والد لعل خان نے رشتہ پسند کیا تھا۔ 1993ء میں محکمہ اوقاف میں خطیب کی ملازمت کے بعد یہ شادی ہوئی۔ حافظ خادم حسین رضوی کی اولاد میں دو بیٹے حافظ محمد سعد، حافظ محمد انس اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔ دونوں بیٹے حافظ قرآن ہیں اور درس نظامی کا کورس کر رہے ہیں۔
ان کا سیاست میں آنے کا سبب ممتاز قادری کی سزائے موت کو مانا جاتا ہے، انھوں نے بہت جلد اپنے سخت بیانات سے قدامت پسند طبقے میں اپنی جگہ بنائی۔ ان پر 2016ء میں توہین مذہب کے قانون کے حق میں ریلی نکالنے پر لاٹھی جارج کیا گیا اور انہیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا تھا۔ انہیں پنجاب حکومت نے فورتھ شیڈول میں رکھا ہوا تھا جس کا مطلب ہے کہ انہیں اپنی نقل و حرکت کے بارے میں پولیس کا آگاہ رکھنا ہوتا تھا۔
2017 میں ایک پارلیمانی بل میں حکومت کی طرف سے قانون ختم نبوت کی ایک شق میں الفاظ بدلنے پر، انھوں نے سخت رد عمل کا اظہار کیا اور نومبر 2017ء میں فیض آباد انٹرچینج پر دھرنا دے دیا۔ 25 نومبر کی صبح وفاقی پولیس اور رینجر نے ایک ناکام آپریشن کیا، جس میں کئی افراد زخمی ہوئے، پولیس نے 12 ہزار آنسو گیس کے شل پھینکے اور 8 لوگ ہلاک بھی ہوئے۔ واقعے کے بعد ملک گیر احتجاج شروع ہو گيا۔ اور 25 نومبر کو وزیر داخلہ نے فوج سے مدد طلب کر لی۔
خادم حسین رضوی نے گزشتہ کچھ سالوں کے دوران پاکستانی سیاست میں اہم مقام حاصل کیا تھا۔ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں ناموس رسالت کے معاملے پر کیے جانے والے شدید احتجاج اور دھرنوں کی وجہ سے ان کی جماعت تحریک لبیک پاکستان کو ملکی سطح پر پذیرائی ملی تھی، جبکہ عام انتخابات 2018 میں ٹی ایل پی ملک کی سب سے بڑی مذہبی جماعت کے طور پر سامنے آئی تھی۔
تحریک لبیک انتخابات کے دوران لاکھوں ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ بعد ازاں توہین رسالت کی مجرم آسیہ کی رہائی کے معاملے پر خادم حسین رضوی اور دیگر ٹی ایل پی قائدین نے ملک میں احتجاج کیا تو انہیں گرفتار کر لیا گیا تھا۔ خادم حسین رضوی کو کئی ماہ جیل کاٹنے کے بعد رہا کیا گیا تھا۔