میگزین رپورٹ
موسمِ سرما آتے ہی ملک بھر میں شہد کی طلب میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ لیکن شہد کی مسلسل فراہمی یقینی بنانے کیلئے چند اہم ترین باتوں کا خاص خیال رکھنا ضروری ہے۔ خصوصاً جنگلی یا قدرتی شہد کے حوالے سے۔ فارمی مکھیوں کا شہد تو نا صرف سارا سال بلا تعطل حاصل کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ سالانہ ہزاروں ٹن کے حساب سے تیار ہونا معمول کی بات ہے۔ اصل مسئلہ جنگلی یا عرفِ عام میں قدرتی شہد کی دستیابی ہے۔ بد قسمتی سے شہد کی تجارت میں بہت سے ایسے اناڑی افراد بھی کود پڑے ہیں جو وقتی منافع کی خاطر شہد کی جنگلی مکھیوں کا قتل عام کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اس حوالے سے اسلامک اکیڈمی کمیونی کیشن آف آرٹس سے وابستہ جواد عبدالمتین نے ایک اہم تحقیقی و تجزیاتی رپورٹ تحریر کی ہے۔ یہ چشم کشا رپورٹ نظرِ قارئین ہے۔
ہم 1993ء سے شہد کے حوالے سے پروڈکشن، سپلائی، مینجمنٹ اور ریسرچ سے منسلک ہیں۔ 2008ء میں جن دنوں اسلامی اکیڈمی آف کمیونی کیشن آرٹس کی بنیاد رکھی گئی، انہی دنوں بازار میں عام فروخت ہونے والے شہد اور اصل خام شہد کے متعلق ہمارے تحقیقات مکمل ہوئی تھیں، جس کی بنیاد پر علمائے کرام سے مشاورت کے بعد ہم نے شہد کی عام فروخت کو محدود کر دیا اور 2010ء تک تمام سیل پوائنٹس بند کرکے شہد کے کام کو صرف اپنے عزیزوں، رشتہ داروں، دوستوں اور ان خریداروں تک محدود رہنے دیا جو شہد کے متعلق مکمل معلومات رکھتے اور خام اور پروسیس شہد میں فرق جانتے ہیں۔
اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ جیسے ہمارے ملک میں ہر دوسرا شخص ’’ماہر سیاست دان‘‘ اور ہر تیسرا شخص ’’ڈاکٹر‘‘ ہے۔ اسی طرح شہد کے متعلق بھی ہر شخص اپنے آپ کو ماہر سمجھتا ہے، اگرچہ اس کے متعلق کچھ بھی نہ جانتا ہو۔
اب وہ تحقیقات کیا تھیں جن کی بنیاد پر ہمیں اپنے کاروبار کو محدود کرنا پڑا؟ اس کی تفصیل میں ابھی یہاں نہیں جائیں گے۔ ہم کیونکہ عام لوگوں کے بجائے صرف شہد کے متعلق معلومات رکھنے والوں کو ہی شہد اور شہد کے کاروبار کے متعلق رہنمائی فراہم کرتے ہیں اس لئے کبھی اس کی تشہیر بھی نہیں کی۔ لیکن یہاں شہد سے متعلق اپنے کاروبار اور تربیتی ترتیب کی تشہیر کرنا مقصود نہیں ہے، موضوع ہے ’’پاکستان میں شہد کی مکھیوں کا قتلِ عام‘‘
اوپر یہ تذکرہ صرف اس لئے کیا تاکہ پڑھنے والوں کو اندازہ ہوجائے کہ شہد کی پروڈکشن، سپلائی، مینجمنٹ اور ریسرچ کے ستائیس سالہ تجربے کی بنیاد پر جو بات کی جارہی ہے وہ حقیقت پر مبنی ہے۔
واضح رہے کہ پچھلے چند برسوں میں سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کے ذریعے سے شہد فروخت کرنے والوں کی بڑی تعداد سامنے آئی ہے۔ ان میں بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو شہد اور شہد کی مکھی کے متعلق معلومات نہیں رکھتے۔ ان کو صرف شہد کی خرید و فروخت سے حاصل ہونے والے منافع سے غرض ہے۔ یہ لوگ سوشل میڈیا پر شہد کی مکھی کے پورے پورے چھتے دکھا کر شہد کو خالص ثابت کرتے ہیں اور پھر اس کو زیادہ سے زیادہ قیمت پر فروخت کرتے ہیں۔ لیکن ان کو اس بات کا بالکل اندازہ نہیں کہ شہد کی مکھی کے مکمل چھتے کو اتارنا کتنا بڑا ظلم ہے۔
سال کے کسی بھی حصے میں اگر شہد کا مکمل چھتا اتار لیا جائے تو شہد کی تمام مکھیاں مر جاتی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شہد کے چھتے میں ایک ملکہ مکھی ہوتی ہے جو انڈے دیتی ہے اور اس ملکہ کے کسی وجہ سے مر جانے کی صورت میں مکھیاں شہد کے چھتے میں موجود بچوں میں سے نئی ملکہ کو منتخب کرتی ہیں جس سے شہد کی کالونی کا نظام چلتا رہتا ہے۔ مگر پورا چھتہ اتارنے کی صورت میں ملکہ مکھی مرجاتی ہے اور تمام انڈے بچے بھی ضائع ہو جاتے ہیں۔ بقایا مکھیاں نا صرف بے گھر ہو جاتی ہیں، بلکہ ان کے پاس کھانے کو بھی کچھ نہیں رہتا۔ اس لیے پورے اتارے گئے چھتے کی تمام مکھیاں بھوک سے تڑپ ترپ کر دم توڑ دیتی ہیں۔
مکھی نے شہد کو سردیوں میں استعمال کی خوراک کے طور پر محفوظ کیا ہوتا ہے۔ جب ان سے مکمل شہد لے لیا جاتا ہے اور ان کے چھتے بھی اتار لیے جاتے ہیں تو ان کے پاس رہنے کی جگہ ہوتی ہے اور نہ ہی سردیاں گزارنے کے لیے کوئی خوراک۔ چھتے میں موجود ملکہ مکھی جو سائز میں بڑی ہونے کی وجہ سے اْڑ بھی نہیں سکتی، وہ بھی مر جاتی ہے۔ یہ بیچاری مکھیاں بھوک اور سردی کی شدت سے اذیت ناک موت مرتی ہیں۔ اسی وجہ سے اب دیہی علاقوں میں بھی جنگلی شہد کی مکھیوں کی تعداد تیزی سے کم ہو رہی ہے۔
پاکستان میں شہد کی مکھیوں کی چار قدرتی اقسام پائی جاتی ہیں۔ ان میں سب سے بڑی ڈورساٹا ہے اس کے بعد میلیفیریا اور پھرفلوریا اور اس کے بعد سرانا۔
پاکستان میں نا تو دنیا کی شہد کی سب سے بڑی مکھی پائی جاتی ہے جس کا نام ’’لیبریوسا‘‘ ہے اور نہ ہی سب سے چھوٹی مکھی جس کا نام ’’انڈرنفورمس‘‘ ہے۔ جبکہ عمومی طور پر لوگ اب بھی صرف چھوٹی مکھی اور بڑی مکھی پر ہی بحث میں مصروف ہیں۔ یہاں یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ پوری دنیا میں شہد پر تحقیق کے حوالے سے مکھیوں سے زیادہ اِن پھولوں کی اہمیت رہی ہے، جن سے شہد حاصل کیا گیا ہو۔
پوری دنیا میں شہد پر تحقیق کا بہت کام ہو چکا ہے۔ اس ضمن میں نا صرف شہد، بلکہ شہد کی مکھی کے حوالے سے بھی بہت سے حقائق سامنے آئے ہیں جو عام لوگوں کے لیے نا صرف حیران کن ہیں۔ بلکہ اس بات کو بھی واضح کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں ایک پوری سورۃ شہد کی مکھی کے نام پر کیوں ہے اور اس کو اتنا تفصیل سے کیوں بیان کیا گیا ہے؟ قرآن کریم میں شہد سے متعلق آیات میں مختصر مگر انتہائی جامع طور پر شہد کی مکھی اور شہد کے متعلق معلومات دی گئی ہیں، جن کو مکمل طور پر سمجھنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ اس کو شہد کے ماہرین ہی سمجھ سکتے ہیں۔ لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے، اس کو یہاں طوالت کے ڈر سے زیرِ بحث نہیں لایا جا سکتا۔
شہد کی مکھی کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تحقیق کے مطابق 60 سے 80 فیصد انسانی خوراک کی پیداوار شہد کی مکھی کی مرہونِ منت ہے۔ کیونکہ یہ پودوں میں پولینیشن کا کام کرتی ہے جس کی وجہ سے ہی پھل اور سبزیاں پیدا ہوتے ہیں۔ اسی حوالے سے معروف سائنسدان البرٹ آئن سٹائن کا قول ہے کہ ’’اگر شہد کی مکھی کرہ ارض سے ختم ہو جاتی ہے تو پھر انسان کے پاس زندگی کے صرف چار سال باقی رہ جاتے ہیں۔ اگر شہد کیمکھیاں نہیں ہوں گی تو پولینیشن نہیں ہوگی اور پولینیشن نہ ہونے کی وجہ سے پودے نہیں ہوں گے، جس کی وجہ سے جانور ختم ہو جائیں گے اور پھر انسان بھی ختم ہوجائیں گے۔‘‘
آئن اسٹائن کے اس نظریہ سے آپ کو اس بات کا اندازہ ہو گیا کہ قدرت کے اس نظام میں شہد کی مکھی کس قدر اہم ہے۔ جیسے ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے لیے ماہرین کی سرپرستی ضروری ہے، اسی طرح شہد کے کام سے متعلق لوگوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اس شعبے کے ماہرین سے تربیت حاصل کریں اور پھر شہد کے کاروبار سے منسلک ہوں۔
شہد کی مکھیوں کے قتل عام کے حوالے سے محکمہ زراعت اور محکمہ جنگلات پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس کی روک تھام کے لیے بھرپور اقدامات کریں ورنہ آنے والے برسوں میں شہد کی مکھیوں کے معدوم ہو جانے کی صورت میں ہماری تمام فصلیں اور باغات بھی پیداوار کی شدید کمی کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس ضمن میں چند اقدامات فوری طور پر اٹھانے کی ضرورت ہے۔
01: شہد کی مکھی کے مکمل چھتے اتارنے پر سخت پابندی اور بھارتی جرمانہ عائد کیا جائے۔
02َ: سرانا مکھی کے چھتے اتارنے پر مکمل پابندی لگائی جائے۔ کیونکہ اس میں شہد بھی بہت کم ہوتا ہے اور یہ مکھی بھی ناپید ہوتی جا رہی ہے۔
03: ڈورساٹا اور فلوریا مکھی کے مکمل چھتے نہ اتارے جائیں۔ بلکہ صرف شہد والا حصہ اتارا جائے اور کچھ شہد مکھی اور اس کے بچوں کے لیے چھوڑ دیا جائے۔
04: زراعت کے شعبے میں شہد کی مکھی کی اہمیت کے پیش نظر محکمہ زراعت اور محکمہ جنگلات، شہد کی مکھی کی حفاظت کے لئے حکومتی سطح پر قانون سازی کے لئے موثر اقدامات کریں۔
05: ان تمام معاملات کو طے کرنے کیلئے قومی زرعی تحقیقاتی مرکز (NARC) کے شعبہ مگس بانی سے رہنمائی حاصل کی جائے۔
06: شہد کی کوالٹی سے متعلق عوام کے خدشات کو دور کرنے کے لیے لیبارٹریوں کا قیام عمل میں لایا جائے۔ تاکہ شہد کے خالص ہونے کی یقین دہانی کرنے کیلئے مکمل چھتوں سے شہد حاصل کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔