رپورٹ :سید علی حسن
اسلام کے نام پروجود میں آنے والے ملک پاکستان میں شریعت کے مطابق ازدواجی تعلقات قائم کرنا جرم بن گیا۔پولیس نے شرعی قوانین کے تحت نو مسلم آرزو فاطمہ سے نکاح کرنے والے علی اظہر کیخلاف سندھ حکومت کے بنائے ہوئے چائلڈ میرج ایکٹ کی آڑ لیتے ہوئے مقدمے میں زیادتی کی دفعہ شامل کر دی۔
آرزو فاطمہ سندھ ہائی کورٹ سمیت ماتحت عدالت میں کئی مرتبہ بیان دے چکی ہے کہ اس نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کرکے اظہرعلی سے اسلامی قوانین کے تحت نکاح کیا ہے اورمیں اپنے شوہر کے ساتھ جانا چاہتی ہوں۔
تفصیلات کے مطابق 13اکتوبر2020 کو آرزو کے والد راجا لال مسیح کی جانب سے تھانہ فریئر میں اپنی بیٹی آرزو کے اغوا کا مقدمہ درج کرایا گیا تھا۔مقدمہ کی تفتیش کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ آرزو کو اغوا نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کرکے علی اظہر سے نکاح کیا کرلیا ہے۔
مذکورہ بات سامنے آنے کے بعد لڑکی کے والد نے دعویٰ کیا کہ آرزو کی عمر13 سال ہے اورقانون کے تحت اس کا نکاح نہیں ہو سکتا،لڑکی کے والد نے اپنے وکیل کے توسط سے عدالت میں درخواست جمع کرائی کہ علی اظہر کیخلاف چائلڈ میرج ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا جائے اور میری بیٹی کو بازیاب کرایا جائے۔
آرزو نے اپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ اس کی عمر18سال ہے اور وہ بالغ ہے اس کو کسی نے اغوا نہیں کیا تھا بلکہ اس نے خود اپنی مرضی سے اسلام قبول کرکے علی اظہر سے نکاح کیا ہے۔نومسلمہ آرزو فاطمہ کی جانب سے نکاح نامہ،مدرسے کی سند ،اقرانامہ اور دیگر دستاویزات بھی پیش کی جاچکی ہیں۔
آرزو فاطمہ کی جانب سے جمع کرائی گئی دستاوایزات کے مطابق 13اکتوبر2020 کو اسلام قبول کیا جس کے بعد اسے مدرسہ اسلامیہ سے سندلاسلام دی گئی،سند میں تصدیق کی گئی کہ آرزو ولد راجا جلال مسیح نے روبرو گواہان کے سامنے اپنی خوشی و رضامندی سے بلا کسی جبر وا کراہ ، رضا ورغبت عیسائیت چھوڑکراسلام قبول کیا اورکلمہ طیبہ و کلمہ شہادت پڑھ کر مکمل طورپر دائرہ اسلام میں داخل ہوگئی۔اس کا سابقہ نام آرزو تھا نیا اسلامی نام آرزو فاطمہ رکھا گیا ہے۔
دستاویزات کے مطابق نو مسلمہ آرزو فاطمہ اورعلی اظہرکا نکاح13اکتوبر2020کو ہوا تھا،نکاح نامے میں آرزو فاطمہ کی عمر18سال بتائی گئی ہے اور حق مہرکی رقم 50ہزار لکھی گئی ہے،دونوں کا نکاح قاضی نے گواہوں کی موجودگی میں پڑھایا تھا۔
نو مسلمہ آرزو فاطمہ کی جانب سے عدالت میں اقرارنامہ جمع کرایا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ میرا نام آرزو فاطمہ ہے،میں بالغ اور مذہب اسلام سے تعلق رکھتی ہوں،بحیثیت بالغ اور18سال عمر ہونے کے بعد میں آئین پاکستان میں دیے گئے استعمال کرنے کی اہل ہوں،میں بنا کسی دبائو کے اپنے فیصلے خود کرنے کا اختیار رکھتی ہوں،بحیثیت مسلمان آئین میں دیے گئے مسلم فیملی لا میں مجھے اپنی مرضی سے شادی کرنے کا اختیار دیا گیا ہے جس کے تحت میں نے مسلم فیملی لا آرڈیننس1961کے تحت اظہرعلی سے نکاح کیا ہے،میں نے اظہرعلی سے نکاح بنا کسی دبائو کے اپنی مرضی سے کہا ہے۔
دوسری جانب پولیس نے شرعی قوانین کے تحت نو مسلم آرزو فاطمہ سے نکاح کرنے والے علی اظہر کیخلاف سندھ حکومت کے بنائے ہوئے چائلڈ میرج ایکٹ کی آڑ لیتے ہوئے مقدمے میں زیادتی کی دفعہ شامل کردی ہے۔
پولیس کی جانب سے جمع کرائے گئے چالان میں کہا گیا ہے کہ آرزو کے والد کی جانب سے آرزو کے پیدائشی سرٹیفکیٹ اوردیگر دستاویزات دی گئی تھیں جن کے مطابق آرزو کی 13سال3ماہ ہے،پولیس نے چالان میں کہا ہے کہ اب تک کی تفتیش، مدعی ،گواہوں کے بیانات،نکاح نامہ ،خود مختیاری سرٹیفکیٹ،مدعی مقدمہ کی جانب سے پیش کردہ ب فارم،آرزو کا پیدائشی سرٹیفکیٹ،تعلیمی اسناد اور اسپیشل میڈیکل بورڈ کی رپورٹ جس میں آرزو کی عمر14،،15 سال بتائی ہے۔
پراسیکیوٹر جنرل ،ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹراورایڈیشنل ڈسٹرکٹ پبلک پراسیکیوٹرسے حاصل کی گئی قانونی رہنمائی سے پایا گیا کہ آرزو13اکتوبرکوازخود اپنی مرضی سے گھر والوں کو بتائے بغیر گھر سے نکل کر اپنے پڑوسی علی اظہر جس کو وہ ایک سال سے پسند کرتی تھی کے ہمراہ سٹی کورٹ جا کروکیل محمود الحسن اوراس کے اسسٹنت جنید علی سے مل کران کے ذریعے پہلے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اورخود مختاری سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے بعد نکاح خواں قاضی عبدالرسول نے گواہان دانش اور حبیب کی موجودگی میں علی اظہر سے نکاح پڑھایا۔
پولیس کے مطابق اسے کسی نے اغوا نہیں کیا ہے چونکہ اس کی عمر18سال سے کم ہے جس کی وجہ سے ملزم علی اظہرکیخلاف سندھ میرج ایکٹ اورکم عمر بچی سے زیادتی جبکہ اس نکاح میں سہولت کار قاضی عبدالرسول،گواہان دانش ،حبیب،وکیل محمودالحسن،اسسٹنٹ جنید علی اورجسٹس آف پیس محمد اظہرالدین کیخلاف سہولت کاری جرم ثابت ہوتا ہے۔