امت رپورٹ
دہلی کے مختلف بارڈرزپرکسانوں کے دھرنے بدھ کے روز21 دن میں داخل ہوگئے۔ ان دھرنوں نے بھارتی معیشت کو تباہ کرکے رکھ دیا جبکہ مودی سرکار اور کسان رہنمائوں کے درمیان بات چیت میں ہونے والے ڈیڈ لاک کی وجہ سے نہیں معلوم کہ یہ دھرنے اور کتنے عرصے تک جاری رہتے ہیں۔
کسان رہنما جوگیندر سنگھ کے بقول ابھی تو دھرنے دہلی کے بارڈرز پر ہیں۔ جب یہ کسان دارالحکومت کے اندر داخل ہوں گے تو اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ معیشت اور سرکار کو مزید کتنا بڑا جھٹکا لگے گا۔
دھرنوں کی وجہ سے بھارتی معیشت کو یومیہ تین ہزار پانچ سو کروڑ روپے (پینتیس ارب انڈین روپے) کا نقصان ہو رہا ہے۔ اس حساب سے پچھلے اکیس روز سے جاری دھرنوں کے نتیجے میں اب تک سات کھرب پینتیس ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔
ڈیمانڈ اینڈ سپلائی متاثر ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان پنجاب، ہریانہ اور ہما چل پردیش کو ہو رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں پھل اور سبزیوں کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ کنفیڈریشن آف آل انڈیا ٹریڈرز نے اگرچہ بیس روزہ دھرنے کے دوران دہلی اوراس کے آس پاس کی ریاستوں میں پانچ ہزار کروڑ روپے کی تجارت اور دیگر کاروباری سرگرمیاں متاثر ہونے کا تخمینہ لگایا ہے۔ اور کہا ہے کہ کسانوں کے احتجاج کی وجہ سے دہلی آنے والا تیس سے چالیس فیصد سامان متاثر ہو رہا ہے تاہم ایسوسی ایٹڈ چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز آف انڈیا کے مطابق کسانوں کے دھرنوں اور مظاہروں کی وجہ سے ویلیو چین اور ٹرانسپورٹ میں خلل پڑنے سے یومیہ تین ہزار پانچ سو کروڑ (پینتیس ارب روپے) کا نقصان ہو رہا ہے۔
چیمبر کے صدر نرنجن ہیرا نندانی کا کہنا ہے ’’پنجاب، ہریانہ، ہما چل پردیش اور جموں و کشمیر کی مشترکہ معیشتوں کا حجم تقریباً اٹھارہ لاکھ کروڑ روپے ہے۔ کسانوں کے جاری احتجاج، سڑکوں، ٹول پلازوں اور ریلوے کی ناکہ بندی سے معاشی سرگرمیاں رک گئی ہیں‘‘۔ انڈین انڈسٹری کی کنفیڈریشن پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ کسانوں کے اجتجاج سے سپلائی چین میں خلل پڑا ہے۔ جو آنے والے دنوں میں بھی معیشت کو بری طرح متاثر کرتا رہے گا۔
واضح رہے کہ بھارتی معیشت پہلے ہی کووڈ نائنٹین کی وجہ سے بے حد دبائو کا شکار ہے۔ بھارتی جی ڈی پی مائنس میں جارہی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پچھلے تین ماہ کے دوران بھارتی معیشت تیزی سے روبہ زوال ہوئی ہے اور اس میں تیئیس اعشاریہ نو فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ انیس سو چھیانوے کے بعد یہ بھارتی معیشت کی بدترین صورتحال ہے۔
چیمبر کے صدر نرنجن ہیرا نندانی کا کہنا ہے کہ سپلائی چین متاثر ہونے کے نتیجے میں ٹیکسٹائل، آٹو اشیا، بائیسائیکل اور کھیلوں کے سامان جیسی صنعتیں، جو کرسمس سے قبل عالمی مارکیٹ کے خریداروں کی ڈیمانڈ پوری کرتی ہیں۔ اپنے آرڈرز کو پورا نہیں کر سکیں گی۔ ہیرا نندانی کے بقول کووڈ نائنٹین سے لگنے والے سخت دھچکے سے نکلنے کے لئے بھارتی معیشت کو اپنی معاشی ترقی کی رفتار دگنی کرنے کی ضرورت ہے۔ جو صنعتی سرگرمیوں کے لئے سازگار ماحول سے ہی ممکن ہے۔ اگر کسانوں کے مظاہرے جاری رہے تو یہ سازگار ماحول میسر ہونا مشکل ہوجائے گا۔
ادھر سنگھو، ٹکری، غازی پور سمیت دہلی کے سات بارڈرز پر جاری کسانوں کے دھرنے کے بعد یہ قصہ راجستھان اور ہریانہ کے درمیانی بارڈر ریواڑی پر بھی شروع ہو چکا ہے۔ ریواڑی بارڈر پر موجود بھارتی چینل دی نیشن کے نمائندے مکیش نے بتایا کہ یہ مورچہ کچھ نیا ہے۔ یہاں پر کسانوں کے دھرنے کو چار روز گزر چکے ہیں۔ پچھلے چار دن سے جے پور سے دہلی آنے والا راستہ بند ہے۔ جس جگہ کسان بیٹھے ہیں، وہ راجستھان کا علاقہ ہے۔ لیکن اس کے عقب میں ہریانہ پولیس نے بڑی بڑی بیرکس اور پتھر رکھے ہوئے ہیں۔ تاکہ کسان اس سے آگے نہ بڑھ پائیں۔
مکیش کو دھرنے میں موجود ایک مقامی کسان رہنما نے بتایا ’’یہاں کے لوگوں نے طے کیا تھا کہ ہم بھی دہلی جاکر ایک مورچہ سنبھالیں گے۔ میوات اور ہریانہ کے دیگر شہروں کے لوگوں کا مزاج ٹھنڈا ہے۔ وہ کسی بھی تحریک میں خاصی تاخیر سے جاگتے ہیں۔ لیکن جب وہ جاگ جائیں تو پھر نہ وہ چین سے خود سوتے ہیں اور نہ کسی کو سونے دیتے ہیں۔ یہاں بھی سنگھو بارڈر، ٹکری بارڈر اورغازی پور بارڈر جیسے مناظر ہوں گے۔ پھر ہم دہلی کی طرف جاکر گھیرائو کریں گے‘‘۔ سنگھو بارڈرپرموجود شرد کپور نے بتایا کہ دھرنے میں موجود ہر کسان کی زبان پر یہی بات ہے کہ جب وہ یہاں آہی گئے ہیں تو کالا قانون واپس کراکر جائیں گے۔
جہاں ایک طرف کسان دہلی کے مختلف بارڈرز پر دھرنا دے رہے ہیں۔ وہیں مشرقی پنجاب میں بھی احتجاج جاری ہے۔ جہاں امرتسر میں بزنس ٹائیکون مکیش امبانی کے سپر اسٹوروں اور بزنس دفاتر کو بھی بند کرادیا گیا ہے۔
پنجاب کسان سبھا کے رہنما بلویندر سنگھ کا کہنا ہے کہ جب تک کالے قوانین واپس نہیں لئے جاتے۔ اڈانی، امبانی مصنوعات کا بائیکاٹ جاری رہے گا۔ بلویندر سنگھ کا مزید کہنا تھا ’’سب سے پہلے پنجاب میں احتجاج کا آغاز ہوا تھا۔ شروع میں کسانوں کی آٹھ سے دس یونینز احتجاج میں شامل تھیں۔ اب صرف پنجاب میں ان کسان یونینز کی تعداد بتیس ہو چکی ہے۔ جبکہ احتجاج کا دائرہ پنجاب سے نکل کر ہریانہ، راجستھان، اترپردیش، اترکھنڈ اور مغربی بنگال سمیت دیگر ریاستوں تک پھیل چکا ہے۔
ملک بھر کی پانچ سو ساٹھ چھوٹی بڑی کسان تنظیمیں اس تحریک کا حصہ ہیں۔ ہم نے پورے امرتسر میں امبانی گروپ کے ریلائنس اور جیو کے تمام سپر اسٹورز اور بزنس دفاتر بند کرا دیئے ہیں۔ کیونکہ اڈانی، امبانی ملک کی ریڑھ کی ہڈی کو توڑ رہے ہیں۔ بھارت کے تمام ایئرپورٹس ان کے حوالے کر دیئے گئے۔ مودی سرکار نے ریلوے اسٹیشن بھی بیچ دیئے ہیں‘‘۔
دوسری جانب کسانوں کے احتجاج کے دوران مرنے والوں کی تعداد بائیس ہو چکی ہے۔ بدھ کے روز سنگھو بارڈر پر دھرنے میں موجود سکھ گرو بابا رام سنگھ جی سنگھرا والے نے اپنے آس پاس کے کسانوں کی تکالیف پر دلبرداشتہ ہوکر خود کشی کرلی۔ خود کو گولی مارنے والے بابا رام سنگھ کو شدید زخمی حالت میں پانی پت کے اسپتال میں پہنچایا گیا تھا، لیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔
خود کشی سے پہلے لکھے گئے اپنے آخری خط میں ہریانہ کے قصبے کرنال سے تعلق رکھنے والے سکھ گرو نے لکھا کہ ’’مودی سرکار کی ناانصافی کے خلاف ان کے دل میں سخت غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ ان سے دھرنے پر بیٹھے کسانوں کی تکالیف بھی نہیں دیکھی جارہی۔ لہٰذا اپنے اس صدمے اور غم و غصہ کا اظہار کرنے کے لئے وہ اپنی جان کی قربانی دے رہے ہیں‘‘۔
بدھ کے روز ہی بھنڈرکلاں کے رہائشی مکھن سنگھ، جو کسانوں کی تحریک میں متحرک کردار ادا کر رہے تھے، ہمیشہ کے لئے دنیا چھوڑگئے۔ شدید ٹھنڈ کی وجہ سے مکھن سنگھ کی طبیعت بگڑ گئی تھی۔ جبکہ پچھلے بیس دنوں میں شدید سردی، ہارٹ اٹیک اور حادثات سے مرنے والے دیگر کسانوں میں برنالہ کے کہان سنگھ ، چہلانوالی کے دھاناسنگھ، بھانگوکھٹرا کے گجن سنگھ، برنالہ کے جنک راج، اترسنگھ والا کے گردیو سنگھ، مانسا کے گرجانت سنگھ، موگا کے گربچن سنگھ، لدھیانہ کے بلجندر سنگھ، بھٹینڈہ کے لکھویر سنگھ، شیرپور کے کرنیل سنگھ، برنالہ کی راجندر کور، بھٹینڈہ کی گرمیل کور، فریدکوٹ کا میوہ سنگھ، سونے پت کا اجے کمار، سنگرور کا لکھویر سنگھ اور دیگر شامل ہیں۔ کسان رہنمائوں نے اعلان کیا ہے کہ اکیس دسمبر کا دن ان مرنے والوں کی یاد میں منایا جائے گا۔ جس میں ان کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا جائے گا۔