سندھ ہائی کورٹ نے پولیس کا ایک اور مقابلہ جعلی قرار دیتے ہوئے اس میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا حکم دے دیا۔
سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نذر اکبرکی سربراہی میں جسٹس ذوالفقار احمد خان پر مشتمل 2 رکنی بینچ کے روبرو 2019 میں ہونے والے پولیس مقابلے سے متعلق درخواست پر سماعت ہوئی۔ درخواست گزاروں کے وکلا کاموقف تھا کہ منگھوپیر پولیس نے 2019 میں سپر ہائی وے پر مقابلہ کیا۔ تھانے میں مقابلے کی کوئی انٹری تھی اور نہ ہی متعلقہ تھانے کو اطلاع دی گئی۔ پولیس نے جعلی مقابلہ کرکے عبداللہ مسعود کو قتل اور ان کے دونوں موکل محمد سہیل اور شیر اللہ کو فائرنگ کرکے زخمی کیا۔
جسٹس نذر اکبر نے ریمارکس میں کہا کہ پولیس کی کہانی فکشن اسٹوری پر مبنی ہے۔ ملزم کو 12 گولیاں سینے میں ماریں مگر سامنے سے ایک گولی نہ چلی۔ تعجب ہے کوئی پولیس اہلکار زخمی تک نہ ہوا۔ جب مخالف سمت سے کوئی فائرنہ ہوا تو اتنی گولیاں کیوں برسائیں۔
عدالت نے پولیس مقابلہ جعلی قرار دیتے ہوئے ایس ایس پی کو حکم دیا کہ وہ 7 روز میں پولیس پارٹی کیخلاف کارروائی کریں اور 15 روز میں انکوائری رپورٹ پیش کریں۔
عدالت نے مقابلے میں شامل پولیس پارٹی کیخلاف کارروائی کا حکم دے دیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ ایس ایس پی فوری پولیس پارٹی کے خلاف کارروائی کریں۔ عدالت میں مبینہ مقابلے کے دوران گرفتار کئے گئے ملزمان محمد سہیل اور شیر اللہ کو سنائی گئی سزا بھی کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کرنے کا حکم دے دیا۔
عدالت نے ملزمان محمد سہیل اور شیر اللہ کو بری کردیا۔ انسداد دہشتگردی عدالت نے ملزمان کو 5، 5 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ ملزمان کے وکیل نے موقف دیا تھا کہ منگھوپیر پولیس نے 2019 میں سپر ہائی وے پر مقابلہ کیا۔ مقابلے کی کوئی انٹری تھی نہ متعلقہ تھانے کو اطلاع۔ پولیس نے جعلی مقابلہ کرکے عبداللہ مسعود کو قتل بھی کیا۔ میرے دونوں موکلوں کو فائرنگ کرکے زخمی کیا گیا۔