رپورٹ:عظمت خاں
حکومت کی دینی مدارس کے خلاف پالیسیوں اور قوانین کے بڑھنے کی صورت میں مولانا فضل الرحمن کو وفاق المدارس میں اہم ذمے داری سونپے کا جانے امکان ہے۔
واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے یکساں نصاب کے حوالے سے دینی مدارس کے نصاب کو ہدف بنایا جارہا ہے، یکساں نصاب کے حوالے سے دینی مدارس کی جانب سے حامی بھرنے کی صورت میں حکومت دیگر نصاب میں اسلامی مضامین کو نافذ العمل کرنے کے بجائے دینی مدارس کے نصاب میں ہی اصلاحات لانے کیلیے کوشاں ہے۔
حکومت کی جانب سے مسلسل قانون سازیوں کے عمل میں مدارس کے نظام کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے، جس میں سب سے زیادہ خطرناک قانون چیئریٹی ایکٹ بنایا گیا ہے۔ اس میں مساجد کے قیام سے لے کر مدارس کے انتظام تک سخت ترین عمل سے گزر کر ممکن ہو سکے گا۔ اس ایکٹ کی مکمل تفصیل اب تک کہیں بھی ظاہر نہیں کی گئی ہے، جس کی وجہ سے مذہبی حلقوں کی تشویش مزید بڑھتی جارہی ہے۔
حالیہ کچھ عرصہ میں لاک ڈائون کے دوران براہ راست مقتدر حلقوں کی جانب سے علمائے کرام کو بلا کر وفاق کے نظام کو بالائے طاق رکھ کر مساجد و مدارس کو بند کرنے کے احکامات کے بعد دینی مدارس کے مہتممین کو خوف لاحق ہو گیا ہے کہ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو حکومت ڈپٹی کمشنرز کے ذریعے مدارس کے خلاف نئے ایکٹ منوا لے گی۔ مہتممین کی یہ تشویش وفاق المدارس کے اعلی حکام تک پہنچائی گئی ہے۔ ملک بھر میں دینی مدارس کی اکثریت جمعیت علمائے اسلام کے نظریئے اور سوچ سے وابستہ ہے جس کی وجہ سے یہ تشویش براہ راست جمعیت علمائے اسلام تک بھی پہنچ رہی ہے ۔
ادھر وفاق المدارس العربیہ کے عہدیداروں کے نئے چنائو کیلئے الیکشن بھی ہونے تھے۔ جن میں صدر وفاق المدارس اور جنرل سیکریٹری وفاق المدارس کے عہدیدار انتہائی اہمیت کے حامل تھے۔ ان میں مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق سکندر کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے وفاق المدارس کو خط لکھ کر اپنی بیماری کے باعث عذر کیا تھا کہ یہ ذمے داریاں کسی اور کو سونپ دی جائیں جس کے بعد اندرونی رائے کے طور پر اپنی، اپنی سطح پر بھی صدر اور جنرل سیکریٹری کے عہدیداروں کے چنائو کیلیے رائے کا اظہارکیا جاتا رہا ہے۔
ذرائع کا دعویٰ ہے کہ حکومت کی جانب سے مدارس کے حوالے سے حالیہ پالیسیوں اور چیئریٹی ایکٹ کے بعد یہ رائے تقویت اختیار کرگئی ہے کہ مولانا فضل الرحمن کووفاق المدارس کا صدر بنا یا جائے۔ اس پر بعض علمائے کرام کی رائے تھی کہ وہ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ بھی ہیں، اس لیے ان کی جگہ کسی اور صدر بنایا جائے تاہم اس سے قبل مولانا مفتی محمودؒ وفاق المدارس کے صدر رہنے کو بطور دلیل پیش کیا گیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک بھر کے دینی مدارس کے بڑے حلقے کی خواہش تھی کہ مولانا ڈاکٹر عادل خان کو وفاق المدارس کا جنرل سیکریٹری بنایا جائے۔ تاہم بعض علمائے کرام کی جانب سے وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر کیلیے مفتی محمد رفیع عثمانی کا نام بھی پیش کیا گیا تھا جبکہ بعض حضرات کی رائے میں صدر کیلیے اس وقت کے نائب صدر مولانا انوار الحق کا نام بھی موزوں قرار دیا گیا تھا اس حوالے سے دارالعلوم کورنگی میں بھی وفاق کا اجلاس ہوا، اس کے بعد بھی تین اجلاسوں میں بات کی گئی۔ تاہم مولانا ڈاکٹر عادل خان کی شہادت کے بعد وفاق المدارس کا اجلاس الیکشن کے حوالے سے موخرکیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ مولانا ڈاکٹر عادل خان کی شہادت کے بعد مولانا فضل الرحمن کے مخالف بعض علما نے کراچی کا دورہ کیا تھا، جس میں بعض مدارس میں جا کر دبے الفاظ میں وفاق المدارس کے الیکشن کی صورت میں کسی سیاسی شخصیت کو آگے نہ لانے کی بات بھی کی تھی تاہم اس وقت وفاق المدارس کے مجلس شوریٰ کے اراکین کی اکثریت بھی اس بات پر متفق ہے کہ وفاق المدارس کے الیکشن یا مرکزی شوریٰ کے اجلاسوں کے ذریعے صدر کا انتخاب مولانا فضل الرحمن کی صورت میں کیا جائے یا کسی ایسے مضبوط عالم دین کو سامنے لایا جائے جو حکومت کی پالیسیوں کو دور اندیشی سے دیکھ کر اور ان کے ایکٹ اور ترامیم کو سمجھ کر اس پر مدارس کے حوالے سے فیصلہ کرے۔
واضح رہے کہ مولانا فضل الرحمن کی طاقت کو منتشر کرنے کیلیے جمعیت علمائے اسلام کے جن رہنمائوں نے بغاوت کی ہے، ان میں کسی کو بھی دینی مدارس کے ہاں وہ مقبولیت نہیں مل سکے گی، جو اس سے قبل حاصل تھی۔