مزار کھلتے ہی پریشان حال زائرین اور بیماروں کی آمد بڑھ گئی، ٹرسٹ کے تحت روزانہ لنگر تقسیم، بجلی بل، خادموں کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات خود کرتا ہے بچیوں کیلیے مدرسہ بھی قائم، ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد
مزار کھلتے ہی پریشان حال زائرین اور بیماروں کی آمد بڑھ گئی، ٹرسٹ کے تحت روزانہ لنگر تقسیم، بجلی بل، خادموں کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات خود کرتا ہے بچیوں کیلیے مدرسہ بھی قائم، ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد

ملیر کی درگاہ بابا ولایت شاہ روحانی علاج کا مرکز

رپورٹ: اقبال اعوان
ملیر الفلاح میں واقع درگاہ بابا ولایت شاہ روحانی علاج کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ مزار کھلتے ہی پریشان حال زائرین اور ذہنی و جسمانی امراض کے شکار افراد امڈ آئے۔ مزار انتظامیہ کورونا بچائو اقدامات پر سختی سے عمل درآمد کر رہی ہے۔ ماسک کے بغیر زائرین کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ سیکورٹی کے لئے جدید کیمروں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ بابا ولایت شاہ ٹرسٹ کے تحت روزانہ لنگر تقسیم کیا جاتا ہے۔ مزار سرکاری تحویل میں نہیں۔ لیکن بجلی کے بل، خادموں کی تنخواہیں اور دیگر اخراجات ٹرسٹ کرتا ہے۔ زائرین سے جبری چندہ یا نذرانہ وصول نہیں کیا جاتا۔ سجادہ نشین امیر انصاری کا کہنا ہے کہ مزار کی بندش کے دوران بھی پریشان حال لوگ آتے تھے۔ اچھا ہوا کہ مزار کھول دیئے گئے۔ مزار پر خواتین زیادہ آتی ہیں۔ جن سے ڈیلنگ کے لئے خواتین ہی رکھی ہوئی ہیں۔ خواتین کا مزار میں قبر کے ایریا میں جانا منع ہے۔ دور سے فاتحہ خوانی کر سکتی ہیں۔ جبکہ روحانی علاج گاہ میں سجادہ نشین خود مرد و خواتین کو الگ الگ دیکھتے ہیں۔ مزار کے حوالے سے سجادہ نشین نے بتایا کہ ’’بابا ولایت شاہ کا تعلق بھارت کے صوبے اتر پردیش ضلع مظفر نگر کے قصبہ کیرانہ سے تھا۔ بابا انصاری خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل خواجہ نظام الدین اولیا کی محفل میں بیٹھنے کے دوران کراچی جانے کی ہدایات ملی۔ جس کے بعد انہوں نے کراچی آ کر ملیر سٹی بہاولپور سوسائٹی میں سکونت اختیار کی۔ اس دوران یہ علاقہ گھنا جنگل ہوتا تھا۔ کہتے ہیں کہ بابا کی چلہ گاہ اورآستانے کی حفاظت دو کالے ناگ کرتے تھے۔ جبکہ پاکستان کی اہم شخصیات اور سول و عسکریافسران ان کے مرید تھے‘‘۔ امیر انصاری کے بقول ’’میرے والد فاروق انصاری بابا ولایت شاہ کے خدمت گار تھے۔ ان کی اولاد پیدائش کے بعد مر جاتی تھی۔ بابا ولایت شاہ نے 4 بیٹوں کے بعد بشارت دی کہ پانچواں بیٹا ہوگا۔ جس کو ہماری خدمت پر لگا دینا۔ اس طرح 1956ء میں میری پیدائش ہوئی اور اب تک مزار پر خدمت کر رہا ہوں۔ بزرگ بابا کی 115 سال کی عمر میں انتقال ہوا‘‘۔ سجادہ نشین کا کہنا تھا کہ یہ درگاہ علاقے میں روحانی علاج کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ بابا کے مزار کی عقبی جالیوں کے ساتھ رکھے تین کراماتی پتھر پر لوگ ہاتھ رکھ کر دعائیں مانگتے ہیں اور مرادیں پوری ہوتی ہیں۔ وہ خود بھی صبح سے شام تک روزانہ روحانی علاج کرتے ہیں۔ ایک سوال پر امیر انصاری نے بتایا کہ کورونا سے قبل روزانہ تین چار سو زائرین آتے تھے۔ اب مزار کھلنے کے باوجود 50/60 آرہے ہیں۔ جمعرات کو تعداد 2 سو سے زائد ہو جاتی ہے۔ سرکاری سطح پر مزار رجسٹرڈ ہے۔ تاہم لنگر اور دیگر اخراجات ولایت شاہ ٹرسٹ کے تحت پورے کیے جاتے ہیں۔ احاطے میں جامع مسجد ولایت شاہ ہے اور ساتھ بچیوں کا مدرسہ ہے۔ وہاں جمعرات کی دوپہر خواتین کی ذکر کی محفل ہوتی ہے۔ کوئی چندہ یا نذرانہ نہیں لیا جاتا۔ جمعرات کی شب مزار کے احاطے میں روحانی محفل ہوتی ہے اور ذکر الٰہی میں علاقے کے لوگ بڑی تعداد میں آتے ہیں۔ نعت خوانی، درود و سلام کی محفل اور ’اللہ ھو‘ کا ورد ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہر علاقے کی درگاہیں شہریوں کے لئے روحانی علاج کا مرکز ہوتی ہیں۔ آج کل کورونا سے معاشی پریشانی بڑھ گئی ہے۔ ذہنی امراض کا لوگ شکار ہو رہے ہیں۔ ایک اور سوال پر ان کا کہنا تھا کہ مزار پر کورونا ایس او پیز پر سختی سے عمل درآمد کرایا جاتا ہے۔ ماسک کے بغیر داخلہ ممنوع ہے۔ خادم ہاتھوں کو سینی ٹائزر لگاتے ہیں۔ مین گیٹ پر باہر نوٹس لگادیا گیا ہے کہ ماسک کے بغیر انٹری بند ہے۔ مزار کے گیٹ کے باہر لکڑی کے کیبن پر پھول والے نے جہاں درگاہ پر چڑھانے والی چادریں، تبرکات، اگر بتی، نمک، گلاب اور گیندے کے پھول رکھے ہوئے ہیں۔ وہیں سینی ٹائزر کی بوتلیں اور ماسک بھی فروخت کے لئے رکھے ہیں۔ پھول والے رمضان کا کہنا ہے کہ 35 سال سے مزار کے باہر چادروں اور پھولوں کی دکان چلا رہا ہوں۔ کورونا سے قبل کاروبار بہت تھا۔ اب عام دنوں میں 10 فیصد اور جمعرات کو 20 فیصد ہوتا ہے۔ بمشکل 8 سو روپے سے ہزار روپے کمالیتا ہوں۔ الفلاح، ملیر، شاہ فیصل کالونی، ڈرگ روڈ اور دیگر علاقوں سے جمعرات کو دو ہزار سے زائد افراد آتے ہیں۔ پریشان حال خواتین، جنات کے شکنجے والی، اثرات کے زیر اثر، مختلف جسمانی بیماریوں کے علاوہ ذہنی مریض بھی آتے ہیں۔ گدی نشین کا کہنا تھا کہ بابا ولایت شاہ کا مزار دو مرحلے میں بنا۔ پہلے نچلا حصہ تعمیر ہوا۔ اس کے بعد اوپری حصہ بنا۔ نچلے حصے میں کچی قبر واقع ہے۔ یہاں پر آنے والے زائرین کو جمعرات، جمعہ اور اتوار کو نچلے حصے میں لے جایا جاتا ہے کہ ادھر فاتحہ خوانی کر لیں۔ مزار کی جالیوں پر چوڑیاں، کنگن، رنگین دھاگے، تالے وغیرہ نظر آئے۔ خادم محمد حسن کا کہنا تھا کہ مزار کے اندرونی حصے پر منتوں مرادوں کے لئے یہ اشیا باندھی جاتی ہیں اور دعا کی جاتی ہے۔ مراد پوری ہونے پر لوگ یہ اشیا کھول کر لے جاتے ہیں۔ خواتین دور سے فاتحہ خوانی کرتی ہیں۔ مزار کے عقبی حصے پر تین کراماتی پتھر ریشمی کپڑوں میں رکھے گئے تھے۔ ولایت شاہ مزار کا ٹرسٹ ہی بجلی کے بل اور دیگر لنگر سمیت سہولتوں کے حوالے سے جاری کاموں کے اخراجات اٹھاتا ہے۔ یہاں سو سے زائد علاقے کی بچیاں پڑھتی ہیں۔ ان کے لئے کھانے کا انتظام بھی کیا جاتا ہے۔ خواتین کی محفل کرائی جاتی ہے۔ جبکہ مزار پر جمعرات کو مردوں کی نعت خوانی اور ذکر الٰہی کی محفل کرائی جاتی ہے۔ جامع مسجد ولایت شاہ کے اخراجات اور خادمین کے اخراجات بھی پورے کیے جاتے ہیں۔ چندہ یا نذرانہ وصول نہیں کیا جاتا۔ فی سبیل اللہ روحانی علاج کیا جاتا ہے۔