قیصر چوہان:
اسٹار وکٹ کیپر بیٹسمین محمد رضوان کا پرخلوص کردار ساتھی کھلاڑیوں کو بھا گیا۔ انہوں نے کھلاڑیوں کے درمیان مقابلے کا ماحول بنانے کیلئے نیا طریقہ متعارف کرا رکھا ہے۔ جس سے ان کی اور دیگر کھلاڑیوں کی پرفارمنس بتدریج بہتر ہوتی جارہی ہے۔ بسااوقات ان کے شائستہ لہجے اور کھلاڑیوں کا مورال بڑھاتا دیکھ کر ساتھی کھلاڑی انہیں کوچ کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔
نماز اور قران کی تلاوت کی پابندی کے سبب وہ کھلاڑیوں میں بے حد مقبول ہیں۔ ٹیم کو جب بھی مشکل صورتحال کا سامنا ہوتا ہے تو وہ وکٹ کیپنگ کے دوران وکٹ کے پیچھے کھڑے ہوکر پرخلوص جملے استعمال کرتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق محمد رضوان فاسٹ بالرز کو بالنگ کے دوران بولتے ہیں کہ تم اس کی وکٹ اڑا کر دکھا تو مانوں۔ ورنہ تم عام بالر ہوگے۔ یہی جملے بالرز کو زیادہ اکساتے ہیں اور وہ کچھ کرنے کی ٹھان لیتے ہیں۔ اس کا عملی مظاہرہ ہوم گرائونڈ میں جنوبی افریقہ کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں بھی دیکھا گیا۔ جہاں پاکستان نے طویل عرصے بعد جنوبی افریقہ کیخلاف وائٹ واش کامیابی کا اعزاز حاصل کیا۔
آخری میچ میں محمد رضوان کی سنچری میچ میں کامیابی کی بنیاد بنی۔ جبکہ اس سیریز میں محمد رضوان نے ایسے غیر معمولی کیچز بھی پکڑے۔ جس سے جانٹی رہوڈز کی یاد تازہ ہوگئی۔ پنڈی ٹیسٹ کے آخری روز وکٹ کیپر محمد رضوان ساتھی کھلاڑیوں کو جوش دلانے کیلئے مختلف فقرے بولتے رہے۔ میچ کے دوران مائیک پر ان کی آوازیں صاف سنائی دیں۔ محمد رضوان کو ساتھی کھلاڑیوں سے کہتے سنا جا سکتا ہے کہ ’بوائز پیٹ میں گرمی رکھ کے، دماغ میں ٹھنڈک رکھ کے‘۔
محمد رضوان کے کھلاڑیوں کو حوصلہ دینے اور اس مخصوص مشورے کی سوشل میڈیا پر دھوم ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھی محمد رضوان کے اس جملے کی ایک مختصر ویڈیو جاری کی۔ پی سی بی نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا کہ ’ہاں رضوان آخر میں سب کُول ہی تھا۔ وکٹ کیپر بیٹسمین محمد رضوان کی خاص بات یہ ہے کہ وہ تجربات سے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 2016ء میں نیوزی لینڈ کے خلاف ہملٹن میں اپنے اولین ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں وہ پہلی ہی گیند پر آؤٹ ہوگئے تھے۔
دوسری اننگز میں ان کے سامنے پانچ وکٹیں گریں اور وہ کچھ بھی نہ کرسکے تھے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ انہیں نہ صرف اعتماد سے بیٹنگ کرنا آگئی ہے۔ بلکہ ٹیل اینڈرز کے ساتھ کس طرح بیٹنگ کرنی ہے، اس فن میں بھی وہ ماہر ہوگئے ہیں۔
جنوبی افریقہ کے خلاف راولپنڈی میں اپنی پہلی ٹیسٹ سنچری بنانے کے بعد محمد رضوان کہتے ہیں ’’آپ کو ہر طرح کی صورتحال کے لیے تیار رہنا پڑتا ہے۔ میں ہر میچ کو آخری سمجھ کر کھیلتا ہوں۔ میں نے ٹیم کے اسسٹنٹ کوچ شاہد اسلم سے جب بات کی تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ نچلے نمبرز کے بیٹسمینوں کے ساتھ کس طرح بیٹنگ کرتے ہیں، یہ آپ اسد شفیق سے سیکھیں۔ میں نے ان کے مشورے پر عمل کیا اور اب میں ٹیل اینڈرز کے ساتھ کھیلنے میں کوئی دقت محسوس نہیں کرتا‘‘۔ محمد رضوان نے کہا ’’سنچری میرے لیے بہت مشکل تھی اور میں چیلنج لے کر بیٹنگ کے لیے گیا تھا۔ کیونکہ یاسر شاہ نے کہا تھا کہ میری نظر میں آپ بیٹسمین نہیں۔ اگر آج آپ نے سو کیا تو میں آپ کو بیٹسمین مانوں گا۔ کیونکہ پچاس تو میں بھی کرلیتا ہوں۔ اسی طرح دوسرے ساتھی کرکٹرز کی طرف سے بھی دلچسپ جملے سننے کو ملے۔ سرفراز احمد نے مجھ سے کہا کہ سنچری کرکے آنا۔ اور جب میں سنچری کرکے واپس آیا تو انہوں نے مجھے گلے لگایا‘‘۔
محمد رضوان نے اپنے ٹیسٹ میچ کریئر کا آغاز 25 نومبر 2016ء کو کیا تھا۔ تاہم نیوزی لینڈ میں کھیلے جانے والے اس ایک ٹیسٹ کے بعد وہ تین سال تک اسکواڈ میں متبادل وکٹ کیپر کے طور پر تو رہے لیکن ٹیم کا حصہ نہ بنے۔ 2019ء میں دورہ آسٹریلیا کے دوران انہیں ایک مرتبہ پھر ٹیم کا حصہ بنایا گیا اور اس کے بعد سے انہوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ رضوان کی وکٹ کیپنگ کی تعریفیں تو ایک عرصے سے کی جاتی رہی ہیں۔ تاہم انہوں نے پاکستان اور ملک سے باہر تسلسل کے ساتھ عمدہ بیٹنگ کا مظاہرہ کیا ہے۔ محمد رضوان کے آبا و اجداد کا تعلق فاٹا (فیڈرلی ایڈمنسٹریٹر ایریاز) کے خوبصورت گائوں جناح کوٹ سے ہے۔ قبیلہ آفریدی ہے۔ ان کے دادا کا نام خان فیروز خان اور والد کا نام اختر پرویز ہے۔ ان کی رہائش پشاور کے معروف علاقے رمدار بازار بیر سکو کے محلہ سنوبر خان مسلم آباد نمبر 3 میں ہے۔
وہ کہتے ہیں ’’میرے دادا خان فیروز خان پولیس اسپتال پشاور میں سپرنٹنڈنٹ کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ جبکہ والد محترم اختر پرویز پولیس اسپتال پشاور میں بطور اسٹور کیپر کام کر رہے ہیں۔ میرے چچا محمد نوروز خان بھی پولیس اسپتال پشاور میں ڈسپنسر ہیں۔ میں یکم جون 1992ء کو پشاور میں پیدا ہوا۔ تین بھائی اور تین بہنوں میں میرا نمبر تیسرا ہے۔ مجھے گھر والے پیار سے ’’زی‘‘ کی عرفیت سے پکارتے ہیں۔ میں نے نیو کیمبرج پبلک اسکول سے نرسری کلاس سے لے کر 8 ویں تک تعلیم حاصل کی۔ 9 ویں کلاس کا امتحان کوہاٹ اڈا کے قریب واقع خلیل مہمند اسکول سے پاس کیا۔ اس کے بعد پاکستان پبلک اسکول میں داخلہ لے لیا اور 10 ویں کا امتحان پاس کرنے کے بعد گورنمنٹ اسلامیہ کالج سے ایف ایس سی کا امتحان دیا۔ اس کے بعد اسلامیہ یونیورسٹی پشاور میں ایڈمشن لے لیا۔ لیکن کرکٹ کی مصروفیات کی وجہ سے گریجویشن نہ کر سکا۔ نومبر 2013ء میں لو ارینج میرج کی۔ اب میں بڑی خوشگوار ازدواجی زندگی گزار رہا ہوں‘‘۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’’ میں نے 6 برس کی عمر میں کرکٹ کا بیٹ تھام لیا تھا۔ پلاسٹک کی گیند سے کرکٹ کھیلنے کا آغاز کیا۔ تھوڑا بڑا ہوا تو ٹینس بال سے کھیلنا شروع کر دیا۔ جب کرکٹ کے کھیل کی سمجھ بوجھ آئی تو اپنے محلے کی ٹیم شہباز الیون کے ساتھ منسلک ہو گیا۔ ہماری ٹیم کے تمام لڑکے رنگین کٹ میں ملبوس ہوتے تھے۔ ہم مختلف ٹیموں کے ساتھ ٹیپ بال کے میچز کھیلتے۔ میں اس ٹیم کے ساتھ 12 ویں پلیئر کے طور پر منسلک تھا۔ میرا کام ٹیم کا سامان سائیکل پر رکھ کر گرائونڈ تک لے جانا اور پھر میچ کے دوران اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں کو پانی پلانا تھا۔ مجھے اس ٹیم کی طرف سے صرف تین میچ کھیلنے کا موقع ملا۔ میں نے اپنے دادا سے ملنے والا جیب خرچ جمع کر کے اپنے لئے رنگین کٹ خریدی۔ ان دنوں مجھے ایڈم گلگرسٹ کی وکٹ کیپنگ اور بیٹنگ بے حد پسند تھی۔ میں اپنے سکول کے دوستوں کے ساتھ بریک ٹائم کے دوران ہونے والے میچ میں وکٹ کیپنگ کیا کرتا تھا‘‘۔