لاوارث بِِلیوں کے لیے پر تعیش ٹھکانہ ترک جوڑے کی کاوش ہے- فائل فوٹو
لاوارث بِِلیوں کے لیے پر تعیش ٹھکانہ ترک جوڑے کی کاوش ہے- فائل فوٹو

ترکی میں بِلیوں کا گائوں عالمی توجہ کا مرکز

احمد نجیب زادے:
ترکی میں بِلیوں کیلیے آباد گائوں عالمی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔’’کیٹ ولیج‘‘ کو دیکھنے کیلیے نہ صرف مقامی بلکہ غیر ملکی سیاحوں کی بڑی تعداد آتی ہے۔

سیاحوں کی جانب بِلیوں کی خوراک اور دیگر آسائشات کیلیے منتظمین کو فنڈز بھی دیے جاتے ہیں۔ یہاں ایک قدرتی چشمہ بھی ہے۔ جس کا پانی انسانوں اور بلیوں کو فراہم کیا جاتا ہے۔ بلیوں کے اس گائوں کو ترک نوجوان مہمت اوربان اوران کی اہلیہ مژگان اوربان نے ساتھی رضاکاروں کی مدد سے بسایا ہے۔ یہاں موجود بلیاں جو کبھی سڑکوں اور گلیوں میں بھٹکتی پھرتی تھیں۔ اب بڑے ٹھاٹ سے یہاں رہتی ہیں۔ بلیوںکیلئے ایک اپارٹمنٹ بلڈنگ کے کئی بلاکس بھی تعمیر کیے گئے ہیں۔ ان فلیٹوں کو بلیوں کی رنگت اور خوبصورتی کے لحاظ سے الاٹ کیا گیا ہے۔

ہر فلیٹ کی مالک بلی کو اچھی طرح اس بات کا علم ہے کہ یہ کمرہ اس کیلیے مختص ہے اور کوئی دوسری بلی اس کے فلیٹ میںگھس نہیں سکتی۔ بلیوں کو حفظان صحت کے اصولوں کے تحت کھانا دیا جاتا ہے اور ان کی صحت کا خیال رکھنے کیلیے ایک وٹرینری ڈاکٹر بھی مقرر کیا گیا ہے۔ ترک میڈیا رپورٹس کے مطابق ترک جوڑے کی جانب سے انطالیہ میں بلیوں کا گائوں بسایا گیا تھا، جس میں 100بلیوں کیلیے جھونپڑی اسٹائل کے خوبصورت اور رنگ برنگے گھر بنائے گئے تھے۔

واضح رہے کہ ترک قوم جانوروں بالخصوص بلیوں، گھوڑوں اور پرندوں سے خاص انسیت رکھتی ہے۔ ترکی میں بلیوں کیلئے قائم کئے جانے والے اس رہائشی پروجیکٹ کا آئیڈیا بھی مقامی ہے۔ حال ہی میں تاریخی مسجد آیا صوفیہ کی رہائشی ایک بلی جس کا نام ’’گلی‘‘ تھا، کے بارے میں بھی عالمی میڈیا نے کافی خبریں اور مضامین شائع کیے تھے۔ یہ بلی کئی سالوں سے آیا صوفیہ کی تاریخی مسجد کی باسی تھی اور مقامی منتظمین سمیت عالمی سیاح اس کے خوب ناز نخرے اٹھاتے تھے۔ لیکن ’’گلی‘‘ کو حالیہ ایام میں کورونا ہوگیا تھا جس کی وجہ سے یہ مرگئی۔ بلیوں کیلیے اولین گائوں کی تعمیر کرنے والے ترک میاں بیوی نے اس پروجیکٹ کی تعمیر کیلیے کچھ فنڈز اکھٹا کئے تھے۔ لیکن جب ان کو فنڈز کمی محسوس ہوئی تو انہوں نے اپنی کار اور دیگر اثاثوں کو فروخت کرکے اس گائوں کی تعمیر مکمل کی اور 100لاوارث بلیوں کو جمع کر کے یہاں لا بسایا۔

مژگان اوربان کا کہنا ہے کہ بلیوں کے پہلے گائوں میں انہوں نے سو گھر بنائے۔ جبکہ ان کی تفریح کیلئے پارکس اور نہانے کیلئے سوئمنگ پول بھی بنایا گیا تھا۔ جب بلیوں کیلئے مختص 100جھونپڑیوں والا یہ گائوں مکمل طور پر بھر گیا تو پھر اس جوڑے اور ترکی کے ’’اسٹریٹس انیملز پروٹکشن ایسوسی ایشن‘‘ کے منتظمین نے اسی علاقہ میں بلیوں کیلیے ایک نیا اپارٹمنٹ بلاک قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کو انسانی رہائش کیلیے فلیٹس کی شکل میں ڈیزائن کیا جس میں شیشہ، فائبر اور لکڑی کا استعمال کیا گیا اورایک بلاک میں دس بلیوں کیلیے پارٹمنٹ تیار کیے گئے۔ یوں انسانوں کی طرح بلیوں کا طرز رہائش بھی لگژری ہوگیا جس کو دیکھنے والے اس کی تعریف کیے بنا نہیں رہ سکتے۔ خوبصورت ولاز والا یہ گائوں اس وقت عالمی اور مقامی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ لوگ یہاں موجود بلیوں کی خوبصورت حرکات و سکنات کو دیکھنے اور کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کرنے کیلیے گھنٹوں وقت گزارتے ہیں۔

میڈیا انٹرویو میںترک جوڑے کا کہنا تھا کہ وہ اگرچہ استنبول میں پلے بڑھے ہیں۔ لیکن ان کی فطرت اور قدرتی ماحول میں دلچسپی حد سے بڑھی ہوئی ہے۔ انہوں نے انطالیہ میں ایک قطعہ اراضی خرید کر اس پر بلیوں کیلیے رہائش گا ہ بنائی۔ ان کا یہ آئیڈیا اس قدر مقبول ہوا ہے کہ بلیوں کے شیلٹر کو دیکھ کر غیر ملکی رضاکار اور سیاح ان سے ٹیکنیکل مدد طلب کررہے ہیں کہ وہ ایسے ہی شیلٹرز اپنے ممالک میں تعمیر کروائیں۔